کچھ اپنے دل پر بھی زخم کھاؤ

646

کچھ عدالتی فیصلوں اور عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے نتیجے میں وجود میں آنے والی شہباز حکومت کے اقدامات اس بات پر اُکسا رہے ہیں کہ بلا خوف و خطر ان پر تبصرہ آرائی کی جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کل حکومت ہو یا اعلیٰ عدالتیں، ان کے فیصلوں اور اٹھائے جانے والے اقدامات پر اختلافی بات کہنے کا مطلب خودکشی کے مترادف ہے لیکن نہ کہنا بھی اپنے ہی ہاتھوں اپنا گلا گھونٹ لینے سے کم نہیں۔ چند ہفتے قبل اعلیٰ عدالت نے آئین کے آرٹیکل 63 کے سلسلے میں تشریح کرتے ہوئے یہ فیصلہ سنایا تھا جو ارکانِ اسمبلی جس پارٹی کی جانب سے دیے گئے ٹکٹ پر الیکشن جیت کر آتے ہیں وہ پارٹی پالیسیوں سے انحراف نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنی پارٹی کے سر براہ کی رائے کے خلاف کسی دوسری پارٹی کے حق میں اپنا ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ پارٹی پالیسی کے خلاف ڈالا گیا ووٹ نہ تو گنتی میں شمار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی وہ اسمبلی کے رکن رہنے کے اہل ہو سکتے ہیں۔ اسی فیصلے کی روشنی میں پی ٹی آئی کے بیس سے زیادہ ارکانِ اسمبلی ’’ڈی سیٹ‘‘ کر دیے گئے اور ان کے ووٹوں کو ’’شمار‘‘ سے باہر بھی نکال دیا گیا۔ ایک مزے کی بات یہ ہوئی کہ عدالت نے ارکانِ اسمبلی کو ڈی سیٹ کرنے کے بعد یہ فیصلہ پھر بھی پارلیمان پر چھوڑ دیا کہ ڈی سیٹ کیے جانے کی مدت کتنے عرصے کے لیے ہونی چاہیے۔ اگر یہ معاملہ بھی پارلیمان ہی کو کرنا تھا تو ان کے ڈی سیٹ کیے جانے کے معاملے کو بھی کیوں نہ پارلیمان پر ہی چھوڑ دیا جاتا۔
آئین میں کسی حکومت کو تبدیل کرنے کا ایک طریقہ ٔ کار رکھ دیا گیا تھا۔ یہ ضروری نہیں کہ اگر کسی شخصیت کے ظاہری رکھ رکھاؤ کو دیکھ کر اس کو ریاستی معاملات چلانے کا اہل سمجھ لیا گیا ہو، وہ منتخب ہونے یا وزیرِ اعظم بننے کے بعد سارے معاملات بحسن و خوبی انجام تک پہنچا سکے۔ اسی ضرورت کے پیش ِ نظر ایک آئینی طریقہ کار کے طور پر تحریک عدم اعتماد کو ہاؤس میں پیش کیے جانے کا راستہ نکالا گیا تھا اور ہے بھی۔ عدم اعتماد کا مطلب ہی اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ عوام کے نمائندے، خواہ ان کا تعلق اپوزیشن سے ہو یا خود حکومت میں بیٹھے اراکین سے، ان کو منتخب وزیر ِ اعظم اور ان کی کابینہ کی کارکردگی غیر تسلی بخش لگ رہی ہے۔ تحریک ِ عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی دعوے کی خود ہی تصدیق یا تکذیب کر دیا کرتی ہے۔ اعلیٰ عدالتی فیصلے کے بعد کیا کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ ’’عدم اعتماد‘‘ کی تحریک کا کوئی جواز رہ جاتا ہے؟۔ ایک ایسی پارٹی جس کو صرف ایک ووٹ کی بھی برتری حاصل ہو، کیا اس کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا کوئی مقصد رہ جاتا ہے؟۔ اس نقطہ نظر کو سامنے رکھا جائے تو یہ جمہوریت کی وہ شکل ہوگی جسے بد ترین آمریت قرار دیا جائے تو بے جا نہیں ہوگا اس لیے کہ وہ کسی آمر کی طرح اپنی من مانیاں کرتی نظر آئے گی۔
موجودہ شہباز حکومت جو عمران حکومت کو محض مہنگائی کرتے جانے کو جواز بنا کر وجود میں آئی تھی، مہنگائی کے آگے بند باندھنے میں سخت ناکام نظر آ رہی ہے۔ بظاہر اس نے بہت چاہا کہ پٹرول ڈیزل کی قیمتیں نہ بڑھائی جائیں لیکن عمران حکومت کی ’’سو سنار کی پر ایک لوہار کی‘‘ مار کر یہ ثابت کر دیا کہ دونوں کی سوچ و فکر میں کوئی تضاد نہیں۔ تھوڑی دیر کے لیے یہ بات مان بھی لی جائے کہ مہنگائی پر بند باندھنا نہ تو عمران حکومت کے لیے ممکن تھا اور نہ ہی کسی بھی آنے والی حکومت کے لیے ممکن ہوسکے گا لیکن کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ مہنگائی کا ہر زخم عوام ہی کو لگایا جائے اور امرا و حکمرانوں کو خراش تک نہ آئے۔
یہ بات تو طے ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ، جس میں اعلیٰ حکومتی عہدیداروں سے لیکر تمام اراکینِ اسمبلی اور ارکان سینیٹ شامل ہیں، معاشرے کے جس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں جس کا گزارا محض ان کی سرکاری تنخواہوں ہی سے ہوتا ہو بلکہ سچی بات یہ ہے کہ جو تنخواہیں وہ لیتے ہیں وہ ان کے بچوں کے جیب خرچ کے برابر بھی نہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو منتخب ہونے سے قبل بھی نہایت خوشحال ہوتا ہے اور منتخب ہونے کے بعد تو اپنا حجم کئی گنا بڑھا لیتا ہے۔ عمران خان نے اپنے دور میں نہ صرف وزرا و ارکان کی تنخواہوں میں کئی کئی گنا اضافہ کیا بلکہ ان کی مراعات میں بھی وہ اضافہ دیکھنے میں آیا جو گزشتہ ساری حکومتوں کے ادوار میں دیکھنے میں نہیں آیا تھا جبکہ یہ وہ طبقہ ہے جسے ان تنخواہوں کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ شہباز شریف نے جس مجبوری کے طور پر پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے اسی مجبوری کو حقیقی مجبوری تسلیم کرتے ہوئے تمام ایسے ارکان اسمبلی و سینیٹ، بشمول صدر، ورزرائے اعلیٰ، گورنرز اور مشیران کی تنخواہوں کے اجرا پر پابندی لگا دینے کے احکامات بھی جاری کرنے چاہئیں تھے تاکہ عام لوگوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس مشکل گھڑی میں صرف وہ ہی اپنے پیٹ پر پتھر نہیں باندھے ہوئے نہیں بلکہ ان کے نمائندے اور رہنما بھی دو دو پتھر باندھے ہوئے ہیں۔ یہ بات تصدیق شدہ ہے کہ جب تک وزیرِ اعظم سمیت سب کی مراعات ختم نہیں کی جائیں گی، ملکی و غیر ملکی فضائی سفر منسوخ نہیں کیے جائیں گے، مفت بجلی، گیس اور پٹرول کے اجرا کا سلسلہ بند نہیں ہوگا، سرکاری رہائش گاہیں بند اور ساری سرکاری گاڑیاں ضبط کرنے جیسے اقدامات نہیں اٹھائے جائیں گے اس وقت تک ملک کسی طور بھی ترقی کی منزل کی جانب گامزن نہیں ہو سکتا۔