صحافیوں کے لیے ماحولیاتی تبدیلی اور میڈیا کاکردارکے موضوع پر تربیتی ورکشاپ کا انعقاد

788

کراچی(رپورٹ:منیر عقیل انصاری) گرین میڈیا انیشیٹو،سیپااورکراچی پریس کلب کے زیر اہتمام”ماحولیاتی تبدیلی اور میڈیا کا کردار” کے موضوع پر صحافیوں کے لیے ایک روزہ تربیتی ورکشاپ کاانعقاد کیا گیا۔ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے ڈائر یکٹر جنر ل سند ھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) نعیم مغل نے کہاکہ کراچی میں سالانہ دس لاکھ لوگ فضائی آلودگی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا علاج کرانے اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کراچی میں آلودگی کے حوالے سے صورتحال کتنی سنگین ہوچکی ہے،آلودگی پھیلانے والے خواہ کسی بھی شعبہ سے ہوں اْن کے خلاف سندھ کے تحفظ ماحولیات قانون 2014کے تحت بلا تفریق کارروائی کی جائے گی۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے سندھ انوائرنمنٹ پروٹیکشن ایجنسی،کراچی پریس کلب اور گرین میڈیا انیشیئٹوکے تعاون سے بدھ کے روز کراچی پریس کلب میں صحافیوں کے لیے منعقدہ “ماحولیاتی تبدیلی اور میڈیا کا کردار” کے موضوع پر ایک روز تربیتی ورکشاپ سے خطاب کر تے ہوئے کیا، جسے عالمی یوم ماحول کی گولڈن جوبلی کے موقع پر سیپا کے ہفتہ ماحولیات کے سلسلے میں منعقد کیا گیا تھا۔ورکشاپ میں بڑی تعداد میں خواتین صحافیوں،کیمرہ مین، سماجی کارکنان، سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس سمیت دیگر نے بڑی تعداد میں شرکت کی ہے، ورکشاپ سے ڈائر یکٹر جنر ل سند ھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) کے نعیم مغل کے علاو ہ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ(ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان کے ریجنل ہیڈ وماہر ماحولیات ڈاکٹر طاہر رشید،گرین میڈیا انیشیئٹو کی سی ای او،ماہر ماحولیات وسینئر صحافی شبینہ فراز، سیپا کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل وقار حسین پھلپوتہ، سیپا کے ڈپٹی ڈائریکٹر ٹیکنیکل سنیلا عبدالواسع اور ماہر ماحولیات رفیع الحق سمیت دیگر نے خطاب کیا۔محکمہ ماحولیات سندھ کے ماتحت ادارے سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) کے ڈائریکٹرجنرل نعیم مغل نے کہا کہ جب بھی میں آلودگی پھیلانے والی کسی بڑی مچھلی کے خلاف ماحولیاتی قوانین کے مطابق کوئی قانونی کارروائی کرتا ہوں تو مجھے بہت زیادہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے،تاہم میں اپنے فرائض منصبی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کرسکتا اور اپنی ذمہ داریاں کسی دباؤ میں آئے بغیر یونہی نبھاتا رہوں گا۔ماحولیات سے منسلک خطرات کو اجاگر کر نے کے لئے میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ,انہوں نے ورکشاپ کے منتظمین کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ ایسی شعوری سرگرمیاں بڑے پیمانے پر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام میں ماحول اور اْس سے جڑے دیگر موضوعات پر شعور اْجاگر کیا جاسکے۔انہوں نے مزید کہاکہ اگر موسمیا تی تبدیلیاں اسی شدت سے جاری رہی تو کرہ اراضی کی بقا خطرے میں پڑ سکتی ہے،جنگلات انسانی بقا کے لئے ناگزیر ہیں –ماحولیاتی صحافت کے فروغ کے لیے غیر سرکاری ادارے گرین میڈیا اینی شی ایٹیو کی بانی اور معروف تربیت کار شبینہ فراز نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ماحول سے متعلق ہمہ جہتہی مسائل کا سامنا ہے۔پاکستان ماحول کو سب سے زیادہ خطرات کا شکار دس ممالک کی فہرست میں شامل ہے لیکن ملکی ذرائع ابلاغ میں ماحولیاتی مسائل کی کوریج نہ ہونے کے برابر ہے –میڈیا کو ماحولیاتی تبدیلیوں اور خطرات کی سنگینی کا احساس کرنا ہو گا – صحافیوں، کالم نگاروں اورمیڈیا ایکٹی وسٹس کو ماحولیات کے سنجیدہ مسئلے کو اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے اس کے تیکنیکی امور سے آگاہی حاصل کرنا چاہیے اور ماحولیاتی موضوعات سے جڑے معاشی، انسانی اور صحت کے مسائل کو عام آدمی تک سادہ الفاظ میں پہنچانا چاہئے۔شبینہ فراز نے ورکشاپ کے شرکاء کو ایک روزہ تربیتی ورکشاپ کے مقاصد بتائے اور کہا کہ خواتین کو اپنے تربیتی پروجیکٹس میں فوقیت اس لیے دیتی ہیں کیونکہ موسمیاتی تبدیلی کے بیشتر منفی اثرات کا سامنا خواتین کو کرنا ہوتا ہے اس لیے خواتین کو بہتر انداز سے آگہی خواتین ہی دے سکتی ہیں۔ڈاکٹر طاہر رشید نے حیاتیاتی تنوع پرسیر حاصل گفتگو کی اور حیات کے تنوع کی حفاظت کے دوران پیش آنے والی مشکلات سمیت ان کے حل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اس میں مختلف انواع و اقسام کے پیڑ پودے، جانور ہیں جو نایاب ہوچکے ہیں جبکہ جو باقی بچ گئے ہیں اْن کی حفاظت کے لیے کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔وقار حسین پھلپوتہنے ماحول کو نقصان پہنچانے والے عناصر کا ذکر کیا اور ان کے حل پر بات کی اور سندھ کی موسمیاتی تبدیلی پالیسی کے مسودے کے خدو خال سے شرکاء کو آگاہ کیااور کہا کہ پالیسی پر عملد رآمد کے لیے ایک موزوں فریم ورک ضروری ہے جس کے ذریعے بہتر اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں۔سنیلا عبدالواسع نے پریزینٹیشن کے ذریعے ماحولیات کے تحفظ سے شرکاء کو آگاہ کیا اور کہا کہ آب و ہوا کی تبدیلی صرف پاکستان کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرہ بن چکی ہے۔ اْنہوں نے کہا کہ اپنی بقاء کے لیے دنیا کو ہماری نہیں بلکہ ہمیں دنیا کی ضرورت ہے اس لیے اپنی بقاء کے لیے اِس کی حفاظت بھی ہمیں خود ہی کرنی ہوگی۔آخر میں معروف ماہر ماحولیات رفیع الحق نے اپنے وسیع ماحولیاتی تجربے کی روشنی میں ایک تصویری پریزنٹیشن کے ذریعے موسمیاتی بے یقینی اور نایاب جانداروں کی معدومی کے حوالے سے ایسے چشم کشا حقائق پیش کیے۔انہوں نے کہا کہ اپنی زمین اور فطرت کا تحفظ کرنا کوئی مشکل بات نہیں ہے،اگر ہم اپنی روزمرہ زندگی میں یہ چھوٹے چھوٹے کام کریں گے، تو یقیناً ہم اپنی ماں زمین کے تحفظ میں ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ملک بھر میں شدید گرمی کی لہریں، غیر معمولی بارشیں، سیلاب وغیرہ یہ سب موسمیاتی تغیرات کا ہی نتیجہ ہیں۔ ایسے میں ہم مشکل صورتحال پیش آنے کے بعد اپنے لوگوں کو آگاہ کرنا شروع کرتے ہیں جبکہ یہ کام سارا سال ہونا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ اب جبکہ ماحولیاتی تبدیلی وقت کی ضرورت بھی بن چکی ہے، تو ماحولیات کو ایک الگ مضمون کے طور پر نصاب میں شامل کیا جانا ضروری ہے تاکہ ہمارے بچوں میں پہلے دن سے تحفظ ماحولیات اور تحفظ فطرت کا شعور اجاگر ہو سکے۔ہمیں ابلاغ کے ایسے ذرائع کی طرف متوجہ ہونا ہوگا جو سب کی پہنچ میں ہوں۔ اس ضمن میں دستاویزی فلمیں نشر کرنا، اور ایسے پسماندہ علاقوں میں جہاں ٹی وی بھی میسر نہ ہوں وہاں موجود سرکاری محکموں کے توسط سے آگاہی مہمات چلانا ضروری ہیں۔انہوں نے شدید موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے افریقی صحرا میں پڑنے والی برفباری کی تصویر دکھائی جو عام تو پر ایک ناممکن تصور ہے۔تقریب کے اختتام پر شرکاء میں سرٹیفکیٹس تقسیم کیے گئے اور شبینہ فراز کی جانب سے مقررین اور معزز مہمانوں کو سندھ کا روایتی تحفہ اجرک پیش کی گئی۔