۔”7000″شرمناک دن

579

اگرکسی نے کوئی جرم نہ کیا ہو مگر اسے 7000 دن تک قید تنہائی میں رکھا جائے تو اس سے زیادہ شرم کی کیا بات ہوگی۔ ان 7000 دنو ں کی کہانی کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے کہ کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں ڈاکٹر محمد صالح صدیقی اور عصمت صدیقی کے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ گھرانے میں 2 مارچ، 1972ء کو ایک بیٹی کی پیدائش ہوتی ہے۔ چونکہ یہ گھر کی سب سے چھوٹی بچی ہوتی ہے اس لیے اس کے بھائی محمد علی صدیقی اور بہن فوزیہ صدیقی خوب خوشیاں مناتے ہیں۔ اس طرح عافیہ صدیقی سب گھر والوں کی آنکھوں کا تارا بن جاتی ہے۔ جب حصول تعلیم کا وقت آتا ہے تو یہ بچی اپنے اسکول اور کالج کی ذہین ترین طالبہ کے طور پر سامنے آتی ہے۔ دین سے لگائو کے باعث قرآن پاک حفظ کرلیتی ہے۔ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے امریکا جاتی ہے۔ وہاں برانڈیز اور ایم آئی ٹی جیسے عالمی شہرت یافتہ اداروں میں تعلیم حاصل کرتی ہے۔ وہ تعلیمی نظام کو بہتر بنانے اور ذہنی معزور بچوں کی تعلیم و تربیت کے شعبہ میں ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) کرکے وطن واپس لوٹتی ہے۔ عافیہ کی ذہانت اور صلاحیتوں کو دیکھ کر عالمی شہرت یافتہ دانشور نوم چومسکی نے کہا تھا کہ ’’عافیہ صدیقی اپنی ذات میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتی ہے وہ جہاں جائے گی تبدیلی لے کر آئے گی‘‘۔
وطن واپس لوٹنے کے بعد وہ قرآن کریم کی تعلیمات کو بنیاد بنا کر ایک ایسے نظام تعلیم پر کام شروع کردیتی ہے جس کے ذریعے 10 سال کے بعد ہر طالب علم کی پوشیدہ صلاحیتیں نکھر کر سامنے آجائے۔ یہیں سے اور شاید اسی وجہ سے اس پر آزمائش و مصائب کا دور شروع ہوا۔ 2003ء میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کو عراق پر حملہ کرنے اور افغانستان کے بعد مسلمانوں کے خلاف ایک اور بڑی دہشت گردانہ کارروائی کے لیے عالمی سطح پر جواز کی ضرورت تھی۔ مسلمانوں کے قتل عام کی عالمی دہشت گرد کارروائی کرنے کے لیے امریکا، برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کو مفت میں اور اپنے حکمرانوں کی نظر میں بے قدر و قیمت ’’پاکستانی‘‘ کے علاوہ اتنا آسان شکار کہاں سے مل سکتا تھا اس لیے انہوں نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے پاکستانی قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کا انتخاب کیا۔ اس قبل جون 1997ء میں جب عامل کانسی کو امریکی حکام کے حوالے کیا گیا تھا تو ان کے ایک اٹارنی (وکیل) رابرٹ ایف ہوران نے کہا تھا ’’مجھے یقین ہے کہ وہاں (پاکستان میں) ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی ماں کو 20,000 ڈالر کے بدلے میں (بیچ) دیں گے، 2 ملین ڈالر کو چھوڑ دیں‘‘۔
افسوس، پھر ایسا ہی ہوا، یہاں ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے چار پاکستانی شہریوں جن میں 2کمسن اور 1 شیرخوار بچہ اور چوتھی ان کی ماں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو محض 55 ہزار ڈالر میں بیچ دیا گیا۔ یعنی امریکیوں نے ایک پاکستانی شہری کی قیمت محض 13,750 ڈالر ادا کی۔ شاید اسی لیے اب ڈاکٹر عافیہ کو پاکستانی سیاستدانوں اور حکام کو پرکھنے کی کسوٹی کہا جاتا ہے۔ کسی نے یہ بھی کہا کہ ’’کاش عافیہ کسی جج، جرنیل، بیوروکیٹ یا سیاستدان کی بیٹی ہوتی تو اس طرح امریکی قید میں نہ سڑرہی ہوتی۔ یہ باتیںمحض خیالی یا کوئی افسانہ نہیں ہیں۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کو ڈان لیکس اسکینڈل میں جس طرح بچایا گیا تھا وہ ”Happy Ending” کی بہترین مثال تھی۔
عافیہ کے اغواء سے لے کر قید ناحق میں 7000 دن گزرنا من حیث القوم ہم سب کے لیے شرمناک ہے۔ عافیہ کیا گئی ملک سے عافیت ہی چلی گئی ہے۔ اگر جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ ان 7000 دنوں میں قائم ہونے والی حکومتوں نے ملک کو قرضوں کی دلدل میں دھنسا دیا۔ ملکی معیشت کو آئی ایم ایف کے شکنجے میں کس دیا اور سیاست میں اخلاقیات کا جنازہ تو بڑے دھوم دھام سے نکالا جارہا ہے۔ تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ، بجلی و گیس کا نظام آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ عوام سے بلواسطہ اور بلاواسطہ دونوں طریقے سے ٹیکس تو وصول کیا جارہا ہے مگر انہیں بدلے میں کوئی ریلیف نہیں دیا جارہا ہے۔ تینوں بڑی سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو عوام کے مسائل کو نظرانداز کرتے ہیں، عوام سے کیے تمام وعدے بھول جاتے ہیں اورجب اقتدار سے باہر ہوجاتے ہیں تو اپنی نااہلی کا سارا ملبہ اداروں پر گرانا شروع کردیتے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کا وعدہ ان کی والدہ اور پاکستان کے عوام سے پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے قائدین اقتدار میں آنے سے قبل کرچکے ہیں۔ قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبوں کی اسمبلیوں میں باضمیر ارکان وقتاً فوقتاً قرارداد پیش کرتے رہتے ہیں مگر حکمرانوں کی جانب سے ہمیشہ بے حسی کا مظاہرہ ہی کیا جاتا رہا ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاستدانوں کی نااہلی ہی بنی ہوئی ہے۔
سابق امریکی اٹارنی جنرل رمزے کلارک واضح الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ ’’درحقیقت ڈاکٹر عافیہ کو سزا کسی جرم کے ارتکاب کے نتیجے میں نہیں سنائی گئی بلکہ یہ بین الاقوامی طاقت کی سیاست کا معاملہ ہے۔ انہوں نے اسے ناانصافی قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کے لیے آواز اٹھائیں گے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’ڈ اکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی سے پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات مزید مضبوط ہوسکتے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو دی گئی سزا بہت بڑی ناانصافی تھی اس لیے انہیں رہا کیا جائے‘‘۔
اسی طرح مشہور امریکی ریسرچ اسکالر اسٹیون لینڈمین نے ڈاکٹرعافیہ کی سزا پر یہ بیان دیا تھا کہ ’’عافیہ کو صرف مسلمان ہونے کی سزا دی گئی ہے‘‘۔ امریکی وکیل و تجزیہ نگار اسٹیون ڈائونز جس نے ابتداء میں عافیہ کی ہمیشہ مخالفت میں تحریریں لکھی اور اسے لیڈی القاعدہ کا خطاب بھی دیا تھا، وہ بھی امریکی عدالت کی ناانصافی اور عافیہ کی جرم بے گناہی کے عوض سزا دیکھ کر چلا اٹھا کہ ’’میں ایک مردہ قوم کی ایک بیٹی کی سزا کا مشاہدہ کرنے (امریکی عدالت) چلا گیا تھا مگر میں انسانیت کی ماں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو خراج تحسین پیش کر کے (عدالت سے) باہر آیا ہوں‘‘ (I went to witness the sentencing of a Daughter of a dead nation but I came out paying my highest tribute to mother of humamity Dr Aafia Siddiqui)
آج کی دنیا میں دو ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات ہونا بہت ضروری ہیں۔ امریکا اور یورپی ممالک مسلسل یہ غلطی کررہے ہیں کہ وہ ہمارے کرپٹ اور اخلاقی پستیوں میں گرے ہوئے سیاستدانوں سے روابط استوار کرکے سمجھ رہے ہیں کہ وہ اس طرح پاکستانی عوام کے دل جیت لیں گے۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ حکومت سے حکومت کے تعلقات عوام کے دل جیتنے کے لیے کافی نہیں ہوتے ہیں۔ امریکی حکام سے پاکستانی عوام نے بڑے دھوکے کھائے ہیں۔
امریکی جیل سے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی پاکستانیوں کے زخموں پر مرہم رکھے جانے کے مترادف ہوگی کیونکہ پوری قوم عافیہ کی باعزت وطن واپسی چاہتی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کو اس لیے بھی وطن واپس لانا ضروری ہے کیونکہ ہر غیرت مند پاکستانی چاہتا ہے کہ ہمارا نام تاریخ میں ’’بیٹی فروش قوم‘‘ کے طور پر نہ لکھا جائے، ورنہ آنے والی نسلیں قیامت تک ہم پر لعن طعن کرتی رہیں گی۔
عوام کھل کر حکمرانوں کو یہ پیغام دے دیں کہ عزت چاہتے ہوتو عوام کے مسائل حل کرو، عافیت چاہتے ہو تو عافیہ کو واپس لے آئو ورنہ اسی طرح ذلیل ہوکر اقتدار سے نکالے جاتے رہو گے اور اپنی بزدلی اور نااہلی کا الزام اداروں پر لگاتے رہو گے۔ سیاستدانوں عافیہ تمہاری نیتوں، صلاحیتوں اور جرأت کو پرکھنے کی کسوٹی بن چکی ہے۔