کراچی(نمائندہ جسارت) سندھ ہائی کورٹ نے دعا زہرہ کو پیش نہ کرنے پرآئی جی سندھ کامران فضل کو کام سے روک دیا۔سندھ ہائی کورٹ میں دعا زہرہ کے مبینہ اغوا سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی۔عدالتی حکم کے باوجود پولیس دعا زہرہ کوپیش کرنے میں ناکام رہی۔عدالت نے آئی جی سندھ کامران فضل کو کام سے روکتے ہوئے ان سے چارج واپس لینے کاحکم
دے دیا۔عدالت نے دعا زہرہ کیس میں تحریری فیصلے میں کہا کہ آئی جی سندھ کامران فضل نے غیرحقیقی رپورٹ پیش کی جو مسترد کی جاتی ہے۔ آئی جی سندھ کا چارج کسی اہل افسر کو دیا جائے۔اسٹیبلشمنٹ ڈو یژن اپنی رائے دے کہ کامران فضل اس عہدے کے اہل ہیں یا نہیں۔ ہم بہترسمجھتے ہیں کہ اس مسئلے کو انتظامیہ پرچھوڑ دیا جائے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ دعا زہرہ خیبر پختونخوا میں ہے۔ ہم نے چھاپے مارے مگر وہ 20 منٹ پہلے وہاں سے چلے گئے۔ ڈی آئی جی ہزارہ کو براہ راست ہدایت جاری کی جائیں۔ پولیس میں سے ان کی مدد کی جارہی ہے۔ آئی جی خیبر پختونخوا کہتے ہیں کہ فکر نہ کریں، ایک دو دن میں دے دیں گے۔ دعا شروع میں ہی ہمارے صوبے سے باہر چلی گئی اور اس نے شادی کرلی ۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایس ایس پی ہزارہ کو ہم کیسے ہدایت جاری کرسکتے ہیں؟ یہ ڈی ایس پی اورایس ایچ او کی سطح کا معاملہ ہے ،دوسرے صوبوں کے آئی جی اور ڈی آئی جی تک کیوں جاتا ہے۔جسٹس آغا فیصل نے ریمارکس دیے کہ ہمارا خیال تھا کہ ہمارا دائرہ صوبے کی حد تک ہے۔آپ کے والے بھی یہی کہتے ہیں۔ ہم کسی دہشتگرد کی تلاش کا نہیں کہہ رہے آپ کو ایک بچی بازیاب کرانے کا کہہ رہے ہیں اگر پولیس افغانستان کا کہہ دیتی تو ہم کیا کر لیتے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ ہم کارروائی میں کہیں مجبور ہوتے ہیں جس پرعدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ حکومت ہیں حکومتیں کیسے مجبور ہو سکتی ہیں۔ دعا پاکستان ہی میں ہے آپ بازیاب نہیں کروا پارہے۔جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کی کارکردگی اور رپورٹ سے مطمئن نہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ کام نہیں کر رہے مگر بچی ہمارے سامنے نہیں آئی۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے ایک ہفتے کی مہلت دینے کی استدعا کی جس پرعدالت نے دعا زہرہ کو 3 جون تک پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اگرآپ جمعہ تک بچی کو لے آئیں تو بچ سکتے ہیں۔اس بات کو یقینی بنائیں کہ بچی جمعہ کو یہاں ہوگی اورایسا نہ ہوا تو پھر شوکاز نوٹس اور کارروائی کریں گے۔