میں سمجھ رہا تھا کہ اس گاؤں کا یہی دستور ہے

603

پاکستان میں تقریباً 4 دہائیوں سے جو کچھ دیکھتا آرہا ہوں اور جو کچھ ابھی تک جاری ہے اس کو دیکھنے اور سمجھنے کے بعد مجھے بہت معیاری تو نہیں لیکن موجودہ صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے، موزوں ترین ایک بات یاد آ رہی ہے جو میں قارئین کے گوش گزار کرانا چاہتا ہوں۔ آج سے تقریباً 50 برس قبل آج کی طرح ذرائع مواصلات تو ہوا نہیں کرتے تھے۔ پاکستان ہی کیا، پورا خطہ جس میں بھارت، بنگلا دیش، افغانستان اور پاکستان جیسے ممالک ہیں، حقیقتاً بہت غریب ہوا کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ نہ تو سوشل میڈیا جیسی کوئی چیز ہوا کرتی تھی اور نہ ہی سیکڑوں ملکی و غیر ملکی ٹیلی ویژن چینلوں، کمپیوٹروں، لیپٹاپوں اور موبائیلوں کی شکل سے تو کوئی واقف ہی نہیں تھا۔ رہا انٹر نیٹ تو یہ ہوتا کیا ہے، اس زمانے والوں کے وہم و گمان سے بھی ماورا کوئی شے ہوتی ہوگی۔ لیکن اس کے باوجود بھی یہ سمجھ لینا کہ زندگی ہر قسم کی رعنائیوں سے محروم ہوا کرتی تھی، غلط ہوگا۔ اس زمانے میں بھی جگہ جگہ مجلسیں، اجتماعات اور جلسے ہوا کرتے تھے اور شاید ہی کوئی بستی ایسی ہو جہاں سیاسی و غیر سیاسی تقریبات نہیں ہوا کرتی ہوں۔ اور شہروں کی اور جانیں، مجھے اتنا یاد ہے کہ کراچی میں رات رات بھر علمائے کرام ہوں، شعرا اور ادبا ہوں یا سیاسی رہنمایانِ قوم، اپنے اپنے خیالات اور پیغامات لوگوں تک پہنچایا کرتے تھے۔ ایسی ہی کچھ مجالس میں مَیں نے اکثر مقامات پر مولانا احتشام الحق تھانوی
(مرحوم) کو ایک لطیفے والی بات سنانے دیکھا ہے۔ فرمایا کرتے تھے کہ کوئی رنگ روٹ چھٹی ملنے پر اپنے گاؤں جا رہا تھا۔ اس کے گاؤں کے راستے میں بہت سے ڈھوک پڑا کرتے تھے۔ گاؤں دیہات کی زندگی میں ایک بہت بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ ہر فرد اپنے علاقے کے افراد کو شکل و صورت اور نام ہی سے نہیں بلکہ اس کے حسب و نسب سے بھی خوب اچھی طرح واقف ہوتا ہے۔ جان پہچان والوں سے سلام دعا کرتے ہوئے وہ ایک ڈھوک سے گزر رہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک مائی تنور میں روٹیاں بکا رہی ہے اور قریب ہی اس کا دو ڈھائی سالہ بچہ بیٹھا ہوا ہے۔ سورج ڈھلنے کے قریب تھا، گاؤں بھی ابھی بہت دور تھا اور بھوک بھی چمک رہی تھی اس لیے وہ مائی کے پاس بیٹھ گیا جو اسے خوب پہچانتی تھی اور کہنے لگا کہ ماسی بھوک لگی ہے کھانا دیدے۔ مائی نے کہا بیٹھ، میں روٹیاں پوری کرکے تجھے کھانا دیتی ہوں۔ کچھ ہی دیر میں کہیں مائی کی ریح آواز کے ساتھ خارج ہوئی۔ اس نے اپنی شرم مٹانے کے لیے بچے کے ایک زور دار دھپ لگائی تاکہ رنگ روٹ اس پر شبہ نہ کرے پر وہ سب بھانپ چکا تھا۔ برداشت تو وہ بھی بہت دیر سے کر رہا لیکن سوچ رہا تھا کہ یہاں سے فارغ ہوں تو کسی جگہ فراغت حاصل کروں۔ مائی کو ایسا کرتے دیکھ کر اس نے بھی وہی حرکت کی اور اٹھ کر مائی کے بچے کو ایک دھپ لگادی۔ مائی چلائی کہ ایک تو میں تیرے لیے روٹیاں تیار کر رہی ہوں دوسرا تو میرے ہی بچے کو مار رہا ہے تو رنگ روٹ نے جواب دیا کہ مائی معاف کرنا، میں سمجھا تھا اس گاؤں کا یہی دستور ہے۔
کراچی میں امن و امان کے قیام کے نام پر مستقل بنیادوں پر فوج رکھی جا سکتی ہے۔ کسی بھی قسم کے الزام کو ثابت کیے بغیر کسی بھی پارٹی کے ذمے داروں سے لیکر معمولی معمولی کارکنوں کو اٹھایا جا سکتا ہے۔ اسلحہ برآمد ہونے کے جرم میں پورا محلہ عذاب کا شکار بنایا جا سکتا ہے۔ پوری پوری بستی کا گھیراؤ کرکے تمام مرد و زن کو میدان میں کھڑا کرکے گھروں کی تلاشی لی جا سکتی ہے۔ جس کو اٹھا لیا جاتا ہے اسے 90 دن تک کوئی مائی کا لال دیکھ بھی نہیں سکتا۔ پھر یہ 90 دن 9 ہزار دنوں میں بھی تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ مار دیا جائے تو کوئی مرد نہ جنازہ پڑھا سکتا ہے اور نہ دفنانے کے لیے قبرستان لے جا سکتا ہے اور اکثر یہ فرائض مائیں بہنیں بھی انجام دیتی رہی ہیں۔ پارٹی کے اہم
رہنماؤں یا چاہنے والوں کی نماز میں یا تدفین میں شرکت کی اجازت مقامی ہیڈ کوارٹر سے حاصل کرنی پڑتی ہے۔ احتجاج کی کال آئے تو پورا مقامی ہیڈ کواٹر براق کی رفتار سے پورے شہر میں پھیل جاتا ہے۔ چالیس چالیس برسوں سے مدفون اسلحے کے ذخائر تو نظر آجاتے ہیں لیکن کب اور کہاں سے آیا، اس کا پتا آج تک نہیں لگایا جاسکا ہے اور نہ شاید اس کی ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ۔
چند ہفتوں کے اندر پورے ملک میں کیا کیا ہوتا رہا ہے۔ سیاسی بنیادوں پر کون کون جان سے جا چکا ہے۔ پاکستان کے آئین و قانون اور اعلیٰ عدالتی فیصلوں کو کس کس طرح پرزے پرزے کیا گیا۔ پورے پاکستان کی سلامتی کو کس درجے نقصان پہچایا گیا ہے۔ ایک سیاسی پارٹی اور اس کے سر پھروں کو کس کس انداز میں درندگی پر اکسایا گیا ہے، اسلام آباد میں عدالتی فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیا کیا دہشت گردی نہیں مچائی گئی ہے۔ املاک کو کس کس طرح خاکستر کر دیا گیا ہے، پاکستان اور پاک فوج کے خلاف کھلے عام مغلظات بکے گئے ہیں اور پورے پاکستان کی معیشت کو حکومت میں رہتے ہوئے بھی اور باہر آنے کے بعد بھی کس بری طرح نقصان پہنچایا گیا ہے، یہ سب کچھ پوری دنیا کے سامنے ہے۔ لیکن بات صرف اتنی سی ہے کہ مائی کا گاؤں ہو یا پاکستان کا سری لنکا، یہاں کا دستور ہی پوری دنیا سے بالکل مختلف ہے۔ اللہ پاکستان کا حامی و ناصر ہو (آمین)