جہاں پاکستانی معیشت اس وقت بحران کا شکار ہے، مہنگائی، برآمدات میں کمی اور سود اور قرض کی ادائیگی دور حاضر کے بڑے چیلنجر ہیں۔ ایک رائے یہ ہے ملک دیوالیہ ہونے کی طرف جا رہا ہے اس میں کوئی شک نہیں معاشی بحران کے بادل پاکستان پر منڈلا رہے ہیں لیکن ان مشکل حالات کے ساتھ کچھ پرامید اور توجہ طلب پہلو بھی ہیں جن کا تجزیہ اور سفارشات وزیر اعظم اور پالیسی ساز اداروں کے لیے پیش خدمت ہیں۔
سال 2021-22 کے دوران پاکستان کی معاشی کی شرح نمو میں نمایاں اضافہ ہوا، جس سے یہ گزشتہ چار سال میں ریکارڈ کی گئی دوسری سب سے زیادہ معاشی نمو بن گئی جو کورونا سے معیشت کی بحالی کا اشارہ دیتی ہے۔ سال 2021-22 میں 5.97 فی صد کی شرح سے ترقی اسی سال کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور ورلڈ بینک کے بالترتیب 4فی صد اور 4.3 فی صد کے تخمینے سے بہت زیادہ ہے۔ ترقی میں بنیادی طور پر صنعتی شعبے نے تعاون کیا، اس کے بعد خدمات اور زراعت کے شعبے، زراعت کے شعبے میں چار بڑی فصلوں کپاس، چاول، گنا اور مکئی میں زبردست نمو دیکھنے میں آئی جبکہ گندم کی پیداوار میں کمی دیکھی گئی۔
سال2021-22 میں معیشت کا حجم 346 بلین ڈالر کے نظرثانی شدہ اعداد وشمار سے بڑھ کر سال 2021-22 میں 380 بلین ڈالرہو گیا۔ ڈالر کے لحاظ سے معیشت کا حجم بڑھ گیا کیونکہ مضبوط ہوا – جو کسی بھی سال میں اب تک کا سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ فی کس آمدنی بھی سال 2020-21 کے لیے 268,223 روپے سے بڑھ کر 314,353 روپے پر شمار کی گئی ہے۔ ڈالر کے لحاظ سے فی کس آمدنی پچھلے سال کے 1,676 ڈالر کے تخمینے سے بڑھ کر 1,798 ڈالر ہوگئی ہے۔ سال 2020-21 کے لیے نظرثانی شدہ جی ڈی پی کی شرح نمو 5.74 فی صد ہے، جس کا تخمینہ عارضی طور پر 5.57 فی صد لگایا گیا تھا۔ فصلوں کے ذیلی شعبے میں 5.92 فی صد سے 5.96 فی صد تک بہتری آئی ہے۔ نظرثانی شدہ تخمینوں میں دیگر فصلوں کی عارضی نمو 8.08 فی صد سے 8.27 فی صد تک بہتر ہوئی ہے۔ نظرثانی شدہ تخمینوں میں صنعتی شعبے کی ترقی 7.81 فی صد ہے جو عارضی تخمینوں میں 7.79 فی صد تھی جبکہ خدمات کے شعبے کی ترقی 5.7 فی صد سے بڑھ کر 6 فی صد ہو گئی ہے۔ سال 2021-22 کے لیے عارضی جی ڈی پی کی شرح نمو کا تخمینہ 5.97 فی صد لگایا گیا ہے۔ یہ معیشت کے تمام شعبوں میں وسیع البنیاد ترقی کا نتیجہ ہے۔ زرعی، صنعتی اور خدمات کے شعبوں کی ترقی بالترتیب 4.40 فی صد، 7.19 فی صد اور 6.19 فی صد ہے۔ گندم کی پیداوار میں کمی کے باوجود زراعت کے شعبے میں ترقی حاصل کی گئی۔
رواں سال کے دوران اہم فصلوں کی نمو گزشتہ سال کے 5.83 فی صد کے مقابلے 7.24 فی صد رہی۔ اہم فصلوں کپاس، چاول، گنا اور مکئی کی پیداوار میں اضافے کا تخمینہ بالترتیب 9 .17 فی صد 10.7 فی صد، 9.4فی صد اور 19 فی صد لگایا گیا ہے۔ کپاس کی فصل کی پیداوار گزشتہ سال کی 7.1 ملین گانٹھوں سے بڑھ کر 8.3 ملین گانٹھوں تک پہنچ گئی۔ چاول کی پیداوار 8.4 ملین ٹن سے 9.3 ملین ٹن تک؛ گنے کی پیداوار 81 ملین ٹن سے 88.7 ملین ٹن تک؛ اور مکئی کی پیداوار 8.4 ملین ٹن سے بڑھ کر 10.6 ملین ٹن ہو گئی۔ گندم کی پیداوار سال 2020-21 میں 27.5 ملین ٹن سے کم ہو کر سال 2021-22 میں 26.4 ملین ٹن ہو گئی۔ دیگر فصلوں میں 5.44 فی صد اضافہ ہوا، جس کی بنیادی وجہ دالوں، سبزیوں، چارے، تیل کے بیجوں اور پھلوں کی پیداوار میں اضافہ ہے۔ لائیو اسٹاک کے شعبے میں گزشتہ سال کے 2.38 فی صد کے مقابلے میں اس سال 3.26 فی صد اضافہ ہوا، جنگلات میں 6.13 فی صد اضافہ ہوا۔ گزشتہ سال 0.45 فی صد کی منفی نمو اور ماہی گیری کی شرح گزشتہ سال 0.73 فی صد کے مقابلے اس سال 0.35 فی
صد رہی۔ مجموعی طور پر صنعتی شعبہ 2021-22 میں 7.19 فی صد کا اضافہ ظاہر کرتا ہے، جبکہ اس نے 2020-21 میں 7.81 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا۔ دیگر معدنیات کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے کان کنی اور کھدائی کے شعبے میں 4.47 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ انڈسٹری (جولائی سال 2021 سے مارچ 2022 تک) 10.48 فی صد کا اضافہ ظاہر کرتی ہے۔ اس ترقی میں اہم شراکت دار خوراک (11.67 فی صد)، تمباکو (16.7 فی صد)، ٹیکسٹائل (3.19 فی صد)، ملبوسات (33.95 فی صد)، لکڑی کی مصنوعات (157.5 فی صد)، کیمیکل (7.79 فی صد)، آئرن اور اسٹیل کی مصنوعات (16.55 فی صد) ہیں، آٹوموبائل (10 .54 فی صد)، فرنیچر (301.83 فی صد) اور دیگر مینوفیکچرنگ (37.83 فی صد)۔ بجلی، گیس اور پانی کی صنعت 7.86 فی صد کی ترقی کو ظاہر کرتی ہے، جس کی بنیادی وجہ سال 2021-22 میں سبسڈی میں اضافہ ہے۔ تعمیراتی صنعت میں قدر میں اضافہ، جو بنیادی طور پر صنعتوں کے تعمیراتی اخراجات سے ہوتا ہے، نے سال2021-22 میں 3.14 فی صد کی معمولی نمو درج کی ہے جو پچھلے سال کے 2.48 فی صد کے مقابلے میں تھی، جس کی بنیادی وجہ عام حکومتی اخراجات میں اضافہ ہے۔ خدمات کا شعبہ ظاہر کرتا ہے کہ سال 2021-22 میں 6.19 فی صد اضافہ ہوا جو سال 2020-21 میں 6 فی صد تھا۔ ہول سیل اور ریٹیل ٹریڈ انڈسٹری میں 10.04 فی صد اضافہ ہوا۔ یہ زراعت، مینوفیکچرنگ اور درآمدات کی پیداوار پر منحصر ہے۔ زراعت، مینوفیکچرنگ اور درآمدات سے متعلق تجارتی قدر میں اضافہ بالترتیب 3.99 فی صد، 9.82 فی صد اور 19.93 فی صد ہے۔ ریلوے کی مجموعی ویلیو ایڈیشن (41.85 فی صد) میں اضافے کی وجہ سے ٹرانسپورٹیشن اور اسٹوریج انڈسٹری میں 5.42 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ہوائی نقل و حمل (26.56 فی صد)، روڈ ٹرانسپورٹ (4.99 فی صد) اور اسٹوریج۔ رہائش اور کھانے کی خدمات کی سرگرمیوں میں 4.07 فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔
کچھ اچھے نتائج کے ساتھ توجہ طلب پہلو بھی ہیں جن میں سب سے پہلے سود سے چھٹکارا ہے ، اس کے بعد گندم کا بحران سامنے ہے۔ رواں سال گندم کی مجموعی پیداوار کا ہدف دو کروڑ 29 لاکھ میٹرک ٹن لگایا گیا تھا جبکہ متوقع پیدوار دو کروڑ 26 لاکھ میٹرک ٹن تک ہو گی۔ گندم کی ملکی سطح پر مجموعی کھپت کا تخمینہ تین کروڑ میٹرک ٹن لگایا گیا۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود گزشتہ دو برسوں سے گندم کی درآمد پر انحصار کر رہا ہے تاکہ ملک میں گندم کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے۔ گندم پاکستان میں خوراک کا اہم جْزو ہے اور ہر پاکستانی اوسطاً 124 کلوگرام گندم سالانہ کھا لیتا ہے۔ ملک کو گندم کی درآمد ایک ایسے وقت میں کرنی پڑ رہی ہے جب دنیا میں روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کی وجہ سے گندم کی عالمی قیمتیں اپنی بلند ترین سطح پر موجود ہیں کیونکہ دنیا میں گندم سپلائی کرنے والے دونوں بڑے ملک یوکرین اور روس ہی ہیں۔ اس لیے ضروری ہے گندم کی درآمدات اور اسمگلنگ کو روکا جائے۔ اور آنے والے برسوں میں گندم کی بہتر پیداوار کے لیے، اچھے بیج، کسانوں کو کھاد اور ماہرین کی مشاورت کی فراہمی ضروری ہے۔
ہمارا دوسرا مسئلہ توانائی یعنی تیل ہے جہاں سبسڈی دینی پڑ رہی ہے یہ بڑی وجہ ہے ڈالر کی بڑھوتری اور بیرونی زرمبادلہ میں کمی کی، برآمدات کو بڑھانے کے لیے ٹیکس فری زونز بنانے ہوں گے، آبی بحران منڈلا رہا ہے بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر فوری مکمل کرنی ہوگی، نوجوانوں کو ملازمت کے بجائے چھوٹے کاروبار کی طرف راغب کرنا ہوگا، زراعت کے اندر ریفارمز کرنی ہوں گی تاکہ پیداوار بڑھے اور کسان کو برآمدات کے جدید طریقے بتانے ہوں گے اور سب سے اہم ہمیں قوم بننا ہو گا حکمرانوں کو سب اختلافات کے باوجود ایک نکاتی ایجنڈے ’’معیشت کی بہتری‘‘ پر اکٹھا ہونا ہوگا۔ عوام کو سادگی کی عادت ڈالنی ہوگی، ایمپورٹڈ کے بجائے ملک میں بنی اشیاء کے استعمال کی۔ ملٹری، سول اسٹیبلشمنٹ، حکمران اور عوام دونوں کو کرپشن سے دور رہنا پڑے گا تو ملک ترقی کر جائے گا۔