بچہ پارٹی

492

چند عشرے پہلے کی بات ہے، سیاسی امور پر گفتگو سیانی اور پختہ عمر کے لوگ ہی کیا کرتے تھے، بچے صرف سیاسی جماعتوں کی جھنڈیوں سے کھیلا کرتے تھے، وہ وقت بہت اچھا تھا اور زمانہ بھی ایسا کہ بچے بڑوں کی محفل میں بیٹھتے ہی نہیں تھے البتہ بڑوں کی خدمت بجا لانے میں پیش پیش رہتے، جب ملک میں پیپلزپارٹی کا ہلہ گلہ تھا اس وقت ایک ہو جمالو پارٹی ہوا کرتی تھی، یہ ٹولی اوباش نوجوانوں پر مشتمل ہوتی اور بچے بھی اس کا حصہ ہوتے تھے، تاہم پیپلزپارٹی سے وابستہ سنجیدہ لوگ کبھی ہو جمالو پارٹی کا حصہ بنتے ہوئے نہیں دیکھے گئے تھے، اس سے پہلے ایک بچہ پارٹی تھی جسے تحریک پاکستان میں دیکھا گیا بعد میں مسلم لیگ نے بچوں میں کیا تھا ایسے بچوں کی ٹولیوں کو بچہ مسلم لیگ کہا جاتا تھا، لیکن اب وقت بدل گیا ہے کہ ووٹ کا حق اب اٹھارہ سال کے نوجوان کو مل چکا ہے، میٹرک کے بعد ہر طالب علم اب ووٹر ہے، بات یہی ختم نہیں ہوتی اب وقت اس قدر بدل گیا ہے کہ ہر گھر میں بچے سوشل میڈیا سے متعارف ہوچکے ہیں، اور وہ ووٹرز سے بڑھ کر ووٹر بنے ہوئے ہیں، یہ عمر ان کی کتابوں میں گزرنی چاہیے تاکہ وہ اپنا مستقبل بناسکیں مگر انہیں فکر یہ رہتی ہے کہ وہ کیسے گھر والوں کو اپنی پسند کے امیدوار کے حق میں قائل کرسکیں۔
ایک وقت تھا طالب علموں کے لیے ملک کے کھلاڑی ہیرو ہوتے تھے، کوئی اصلاح الدین، منور زمان، سلیم شیروانی بننا چاہتا تھا تو کوئی کرکٹ میں دلچسپی لیتے ہوئے ماجد خان، عمران خان، میاں داد بننے کی تگ دو یا خواہش رکھتا، آج کا نوجوان بھی اپنا کوئی ہدف رکھتا ہے، کوئی ہیرو اس کا بھی ہے، لیکن اسے کوئی سمجھانے اور بتانے والا نہیں کہ اسے صرف سیاست کی نہیں بلکہ تربیت اور اخلاقیات کی بھی ضرورت ہے، تربیت کے لیے بلاشبہ بہترین درس گاہ گھر ہے، گھر ہی کی طرح دوسری انتہائی اہم درس گاہ اسکول ہے، یہی وہ جگہ ہے جہاں انہیں بتایا جانا ہے کہ ’اچھے بچے‘ ہمیشہ سچ بولتے ہیں، جھوٹ بولنا بہت بری بات ہے، اچھے بچے بڑوں کا احترام کرتے ہیں بڑوں سے بدتمیزی سے بولنا گناہ ہے لیکن تشویش اس بات کی ہے اب ہماری نئی نسل اخلاق کی انتہائی پست سطح تک گرچکی ہے، اور اس کا ذمے دار کون ہے؟ والدین ہیں یا استاد، محلہ کی محفلیں ہیں یا معاشرہ؟
نوجوانوں کی تربیت کے لیے اس سے بھی اہم درس گاہ میڈیا ہے ماضی میں صرف ٹی وی اسکرین ہوا کرتی تھی جو شام چار بجے شروع ہوتا اور اس کی نشریات رات دس بجے بند ہوجاتیں اب اس کی جگہ موبائل کی اسکرین نے لے لی ہے، انٹر نیٹ نے لے لی ہے، جہاں اخلاق نام کی کوئی چیز ہی نہیں اور ٹی وی اسکرین پر اب صرف سیاست رہ گئی ہے، عید یا کوئی قومی تہوار، کوئی موقع ایسا نہیں ہے کہ جہاں ٹی وی شوبز سے وابستہ افراد موجود نہ ہوں، اب تو مذہبی پروگراموں کے لیے ان کی خدمات لی جاتی ہیں کہ ریٹنگ کا مسئلہ ہے، بڑے بڑے بوتیک ان کے لیے لباس تیار کرتے ہیں، فیشن ہے ہر روز ایک نیا رنگ دیکھنے کو مل رہا ہے، رہی سہی کسر جگت بازوں نے پوری کردی ہے… اب وقت اس قدر بدل گیا ہے کہ جگت باز بھی آج کے نوجوان کے آئیڈل بن رہے ہیں۔
یہ ہے آج کا وہ ماحول جس میں ہماری نوجوان نسل پروان چڑھ رہی ہے اسی لیے نوجوانوں کی اکثریت بدزبان ہے، اور بڑوں سے بدتمیزی کرنا معیوب نہیں سمجھتے، سوال یہ ہے کہ اس مسئلہ کا حل کیا ہے؟ کیا میڈیا درست ہوجائے تو بہتری آسکتی ہے؟ کیا والدین اپنا کردار ادا کرنا شروع کردیں تو معاملات درست ہوسکتے ہیں؟ کیا منبر اور محراب آگے بڑھیں؟ کیا ہو جس سے تہذیب واپس آسکے آج کے کالم کی ترجیح ِ اوّل یہی ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو بد تہذیب ہونے سے کیسے بچا سکتے ہیں کیا بچوں اور ٹین ایجرز پر موبائل استعمال کرنے کی پابندی لگا دی جائے؟ کیا ٹاک شوز بند ہوجانے چاہئیں ڈسپلن کے لیے سختی لانے کی ضرورت ہے؟ اور کیا تربیت کے لیے واقعی سختی درکار ہے؟ کچھ ضرور ہونا چاہیے… والد کو چاہیے کہ فجر کی نماز محلے کی مسجد میں ادا کرے اور اس کا بیٹا اس کے ساتھ جائے، آغاز یہاں سے کرلیا جائے تو باقی امور بھی طے کرنے میں آسانی رہے گی۔