جب کلام پڑھا جاتا ہے اور ہم سنتے ہیں کہ کوئی بات ہم سے کہی جا رہی ہے، کوئی ہم سے مکالمہ کررہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اے میرے بندے، اے میری بندی اس کو سنو۔ جب ہم سے کہا جا رہا ہے تو پھر اس بات کا جواب بھی دیا جانا چاہیے۔ کوئی گونگا یا بہرا ہوگا تو جواب نہ دے گا، یا اندھا ہوگا جسے دکھائی نہ دے گا۔ قرآن نے خود کہا ہے کہ یہ لوگ اندھوں اور بہروں کی طرح قرآن سے گزر جاتے ہیں، ان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ لیکن گوشت پوست کے انسان سے اْس کا محبوب، اْس کا رب، اْس کا مالک کلام کر رہا ہو اور اْس کا کوئی جواب اْس کی طرف سے نہ ہو۔ یہ بڑی عجیب بات ہے۔
دل کا جواب یہ ہے کہ اس پر وہی کیفیت طاری ہوجائے، جو کیفیت اس کلام کے اندر موجود ہے۔ زبان کا جواب یہ ہے کہ آیات سننے کے بعد ان کا جواب دیا جائے۔ بہت ساری آیات پر تو نبی کریمؐ نے خود تعلیم دی ہے کہ جب وہ آیات پڑھی جائیں تو ان کا جواب دیا جائے۔ اگر آیت پڑھی جائے: ’’کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں؟‘‘ (التین: 8) آدمی کہے: بلٰی‘کیوں نہیں۔ فَبِاَیِّ اٰلاَئِ (الرحمٰن) سنے تو بھی جواب دینے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اس طرح کی اور بہت ساری آیات ہیں۔
یہ پہلو تو آیات کا جواب دینے کا ہے۔ لیکن جن صحابہؓ نے رات کی نماز میں نبی کریمؐ کے ساتھ شرکت کی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ آپؐ کی تلاوت قرآن کا انداز یہ تھا کہ اگر کہیں اللہ تعالیٰ کی صفات کا ذکر آتا تو آپؐ سبحان اللہ کہتے‘ کہیں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا ذکر آتا تو الحمدللہ فرماتے، کہیں اْس کی نعمتوں کا ذکر آتا تو آپؐ رک کر اس کا سوال فرماتے، اور اْس کو مانگتے، اور کہیں اس کے عذاب کا ذکر آتا تو آپؐ اس پر پناہ مانگتے۔ آپؐ ہر چیز کا فوراً جواب زبان سے دیا کرتے۔
تلاوت آیات پر آنکھیں بھی جواب دیتی ہیں۔ اس کلام کی عظمت کا احساس ہو تو دل نرم پڑنے چاہییں، اور دل نرم پڑیں تو آنکھوں میں نمی آنی چاہیے۔ اس لیے حدیث ہے کہ قرآن پڑھو تو روئو، رو نہ سکو تو رونے کی کوشش کرو اور اگر ہو سکے تو اس کیفیت کو طاری کرو۔
قرآن کا ادب اور تعظیم ضروری ہے، اس میں قبلہ رو بیٹھنا، وضو کرنا، سر جھکا کر پڑھنا، یہ سب باتیں شامل ہیں۔ لیکن اس ادب کو اس حد تک نہ بڑھایا جائے کہ تلاوت کو ہی ترک کر دے، مثلاً یہ کہ وضو نہیں ہے اور بغیر وضو کے تلاوت نہیں ہو سکتی۔
تلاوت کے بہت سارے مدارج ہیں۔ ایک درجہ ترتیل ہے جس کا قرآن نے خود حکم دیا ہے۔ ’’اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو‘‘۔ (المزمل: 4) مطلب یہ ہے کہ خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھے، سمجھ کر پڑھے، جذب کرکے پڑھے، اچھی طرح پڑھے، لحن کے ساتھ پڑھے اور ذوق اور شوق کے ساتھ پڑھے۔ ترتیل کا اردو یا انگریزی میں ترجمہ نہیں ہوسکتا۔ ترتیل میں یہ سب مفہوم شامل ہیں۔
پاکیزگی بھی ضروری ہے۔ اس کے لیے ہمارے ہاں دینی لفظ طہارت ہے۔ طہارت کے ایک معنی ظاہری طہارت کے ہیں جو فقہ کے احکام سے حاصل ہوتی ہے۔ اس کے دوسرے معنی باطنی طہارت کے ہیں۔ باطنی طہارت یہ ہے کہ دل ان چیزوں سے پاک ہو جو اللہ کو ناپسند ہیں۔ اخلاق ان چیزوں سے پاک ہوں جنھیں اللہ نے ناپسند فرمایا ہے۔ زبان اْن چیزوں سے پاک ہو جو اللہ کو ناپسند ہیں۔ مال ان چیزوں سے پاک ہو جن سے اللہ نے منع فرمایا اور حرام ٹھہرایا ہے۔ غذا اْس لقمے سے پاک ہو جو اللہ کے نزدیک ناپاک ہے۔ یہ بھی پاکیزگی کے معنی ہیں اور جب تک یہ نہ ہو قرآن اپنے دروازے نہیں کھولتا۔
اللہ سے تعلق بھی بہت ضروری ہے۔ سب کچھ اْس کے ہاتھ میں ہے، اور احادیث کے اندر بے شمار دعائوں کی تعلیم دی گئی ہے۔ ان سب دعائوں کو آپ کتابوں سے حاصل کر سکتے ہیں۔ اْن کو یاد کر سکتے ہیں اور اْن کو پڑھنے کا اہتمام کر سکتے ہیں۔
قرآن کو سمجھنا بھی اہم ہے۔ یہ آپ نہ سمجھیں کہ سمجھے بغیر قرآن کا فائدہ حاصل نہ ہوگا۔ ہوگا تو سہی لیکن پورا فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ لیکن صرف سمجھنا اور علم ہی کافی نہیں ہے اس لیے کہ بے شمار لوگ ہیں جو بغیر سمجھے بھی قرآن سے بہت کچھ حاصل کر لیتے ہیں، اور بہت سارے لوگ بہت کچھ سمجھنے اور علم حاصل کرنے کے باوجود اس سے کچھ حاصل نہیں کر پاتے۔
آپ نے شاید اپنے گھروں میں یا محلوں کے اندر دیکھا ہو کہ ایسے لوگ جو قرآن کا ایک بھی حرف اور معنی نہیں جانتے، وہ کتاب کھول کر بیٹھ جاتے ہیں اور زار و قطار روتے ہیں اور پڑھتے ہیں اور پڑھتے چلے جاتے ہیں۔ اور وہ جو اس کی لغت اور معانی اور تفسیر کے امام ہوتے ہیں، وہ عرب جو اس کی زبان سے پوری طرح واقف ہوتے ہیں، وہ ملحد اور بے دین بھی ہوتے ہیں، اس لیے صرف زبان کا جاننا اور سمجھ لینا کافی نہیں ہے۔ ظاہر ہے اس کے لیے ایمان اور بہت ساری چیزیں ضروری ہیں۔
میں نے تو اندھوں کو بھی دیکھا ہے کہ بے چارہ پڑھنا نہیں جانتا لیکن لائنوں پر انگلی پھیرتا جاتا ہے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں۔ یہ اللہ کا کلام ہے، دوسرے کلاموں کی طرح کا کلام نہیں ہے، اور نہ دوسری کتابوں کی طرح کی ہی کتاب ہے۔ البتہ سمجھنا بھی ضروری ہے۔ ہر مسلمان پر فرض ہے کہ خود قرآن کو سمجھے اور معنی معلوم کرے، اور پھر اس سے آگے بڑھے۔