افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

8183

اسلامی تحریک کا احیا
چونکہ میرے پیش نظر تحریک اسلامی کا احیا ہے، اس لیے مجھے بھی… تدریج کے ساتھ اپنے مقصد کی طرف پیش قدمی کرنی پڑی ہے… ترجمان القرآن کی زندگی کے ابتدائی چار سال اس کوشش میں صرف ہوئے کہ مسلمانوں کے مختلف طبقوں میں گمراہی کی جو جو شکلیں پیدا ہوگئی ہیں ان پر گرفت کی جائے اور اسلام سے جو روز افزوں بْعد اْن میں پیدا ہو رہا ہے، اسے روکا جائے۔ ابھی یہ کوشش جاری ہی تھی کہ 1937ء میں یکایک یہ خطرہ سامنے آگیا کہ ہندستان کے مسلمان کہیں اس وطنی قومیت کی تحریک کے شکار نہ ہو جائیں جو آندھی اور طوفان کی طرح ملک پر چھاتی چلی جا رہی تھی۔ یہ ظاہر بات ہے کہ ہم موجودہ ظالمانہ حکومت کے خواہ کتنے ہی مخالف ہوں، اور ہمارے دل میں اس کے پنجے سے نکلنے کی خواہش چاہے کانگریسی حضرات سے بھی بڑھی ہوئی کیوں نہ ہو، مگر ہم کسی طرح بھی یہ گوارا نہیں کر سکتے کہ جو لوگ اِس وقت تک تھوڑے یا بہت اسلام کے حلقۂ اثر میں ہیں اْن کو ہندستانی قوم پرستی کی تحریک اپنی ربط ِ عوام کی تدبیروں سے، اور اپنی واردھا اسکیم اور ودیا مندر اسکیم کے ذریعے سے، اور اپنے سیاسی و معاشی تفوق کے زور سے اپنے اندر جذب کر لے، اور ان کے نظریات اور ان کی زندگی کو اتنا متغیرکر دے کہ ایک دو پشتوں کے بعد ہندستان کی آبادی میں اسلام اْتنا ہی اجنبی ہو کر رہ جائے جتنا جاپان یا امریکا میں ہے۔
اس خطرے کو اور زیادہ پریشان کن جس چیز نے بنا دیا وہ یہ تھی کہ محض انگریزی اقتدار سے آزاد ہونے کے لالچ میں مسلمانوں کے مذہبی رہنمائوں کا ایک سب سے زیادہ بااثر طبقہ اس وطنی قوم پرستی کی تحریک کا معاون بن گیا اور اس نے انگریز دشمنی کے اندھے جوش میں اِس چیز کی طرف سے بالکل آنکھیں بند کر لیں کہ اس تحریک کا فروغ ہندستان میں اسلام کے مستقبل پر کس طرح اثرانداز ہوگا۔ لہٰذا اس خطرے کا سدِّباب کرنے کے لیے میں نے ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کش مکش‘‘ کے عنوان سے مضامین کا ایک سلسلہ 1937ء کے آخر میں اور پھر دوسرا سلسلہ 1939ء کے آغاز میں شائع کیا۔ ان دونوں مجموعوں میں میرے پیش نظر صرف یہ چیز تھی کہ مسلمان کم از کم اپنی مسلمانیت کے موجودہ مرتبے سے نیچے نہ جانے پائیں اور اپنے تشخص کو گم نہ کر دیں۔ اس لیے میں نے ان کے اندر اسلامی قومیت کا احساس بیدار کرنے کی کوشش کی، ان کو اس جمہوری لادینی نظام حکومت کے نقصانات سے آگاہ کیا جو واحد قومیت کے مفروضے پر ہندستان میں قائم کیا جا رہا تھا، اْن آئینی تحفظات اور ’’بنیادی حقوق‘‘ کی حقیقت واضح کی جن پر اعتماد کر کے مسلمان اس مہلک جمہوری دستور کے جال میں پھنسنے کے لیے آمادہ ہو رہے تھے، اور ان کے سامنے شعبہ دارالاسلام کا نصب العین پیش کیا تاکہ کسی نصب العین کے موجود نہ ہونے سے خیالات اور اعمال کی جو پراگندگی ان کے اندر پیدا ہو گئی ہے وہ بھی دور ہو اور ان کو نظر جمانے کے لیے ایک ایسا مطمح نظر بھی مل جائے جو نہ تو اصل اسلامی نصب العین کی سمت سے ہٹا ہوا ہو اور نہ اتنا زیادہ بلند ہو کہ اس کی بلندی کو دیکھ کران کی ہمتیں پست ہو جائیں۔
(ماہنامہ ترجمان القرآن، فروری 1941)