چولستان اور سراج الحق کی الخدمت فاؤنڈیشن

598

محسوس کریں ہمارے سامنے جانور اور انسان بھوک، پیاس اور بیماری کی وجہ سے مر رہے ہوں اور حاکم وقت چولستان کی زندگیاں بچانے کے بجائے اپنی حکومت کو بچانے میں مصروف ہو۔
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کر و بیاں
یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ ذات باری تعالیٰ نے انسان کو انسانیت کی خدمت کے لیے دنیا میں بھیجا ہے۔ اگر انسان کی تخلیق کا مقصد صرف عبادت ہوتا تو اس کے لیے فرشتے ہی کافی تھے۔ ضرورت مندوں، محتاجوں اور مسکینوں کے کام آنا ہی انسانیت کی معراج ہے۔ جس دل میں انسانیت کی خدمت کا نہیں وہ دل نہیں پتھر کا ٹکڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی خدمت کو خالق کی خدمت قرار دیا ہے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انسان سے کہے گا: اے ابن آدم! میں بیمار پڑا رہا لیکن تو نے میری عیادت نہیں کی۔ انسان کہے گا: تو سارے جہاں کا پروردگار ہے تو کب بیمار تھا اور میں تیری عیادت کیسے کرتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے لیکن اس کے باوجود تو اس کی مزاج پرسی کے لیے نہیں گیا۔ اگر تو اس کے پاس جاتا تو مجھے وہاں پاتا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا لیکن تونے کھانا نہیں دیا۔ انسان عرض کرے گا: اے رب العالمین! تو کب بھوکا تھا اور میں تجھے کیسے کھانا کھلاتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تجھے یاد نہیں کہ میرے فلاں بندے نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا لیکن تونے اُسے کھانا نہیں کھلایا۔ اگر تونے اس کا سوال پورا کیا ہوتا تو آج اس کا ثواب یہاں پاتا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا لیکن تو نے مجھے پانی نہیں پلایا۔ انسان عرض کرے گا: اے دونوں جہاں کے پروردگار! تو کب پیاسا تھا اور میں تجھے کیسے پانی پلاتا؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا لیکن تو نے اس کی پیاس بجھانے سے انکار کردیا تھا اگر تو نے اس کی پیاس بجھائی ہوتی تو آج اس کا ثواب یہاں پاتا۔
رسول اللہؐ نے فرمایا مسلمانوں کو آپس میں معاملات اور معاشرت بھائیوں کی طرح کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کے ساتھ رحمت، شفقت، نرمی برتنے اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون میں پورے اخلاص اور خیر خواہی سے پیش آنا چاہیے۔ حدیث شریف میں ہے، مفہوم: ’’رحم کرو تم زمین والوں پر، رحم کرے گا تم پر آسمان والا‘‘۔ (ترمذی)
سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ دوسرے پر ظلم کرتا ہے نہ اسے (دشمن کے) سپرد کرتا ہے جو مسلمان بھائی کی ضرورت میں کام آئے گا اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت میں کام آئے گا اور جو کسی مسلمان کے رنج اور غم کو دور کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی مصیبت کو دور کر دے گا اور جو کسی مسلمان کے عیب چھپائے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب کو چھپائے گا۔ مجھے سیدنا عمر فاروقؓ کا دور حکومت یاد آتا ہے۔ رعایا کی خبر گیری کے لیے رات کو گشت کرتے۔ ایک شب گشت کررہے تھے کہ ایک گھر سے بچے کے رونے کی آواز آئی۔ آپؓ نے بچے کی ماں سے کہا کہ بچے کو چپ کرائے اور کھانے پینے کے لیے کچھ دے۔ بچے کی ماں نے کہا کہ بچے کا دودھ چھڑا رہی ہوں، اس لیے وہ رو رہا ہے کیونکہ امیرالمومنین عمرؓ نے حکم جاری کیا ہوا ہے کہ جب تک بچہ دودھ پیتا ہے اس کا وظیفہ نہیں لگ سکتا، میں اس کا دودھ چھڑا رہی ہوں تاکہ وظیفہ لگ سکے۔ یہ سن کر سیدنا عمرؓ سخت افسردہ ہوئے اور فرمایا کہ ہائے افسوس عمر نے کتنے بچوں کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ واپس جاکر اعلان کروادیا کہ جس دن سے بچہ پیدا ہوگا، اسی دن سے وظیفہ جاری ہوگا۔ ایک بار مدینہ میں گشت کررہے تھے کہ بچوں کے رونے کی آواز سنی، تحقیق پر معلوم ہوا کہ گھر میں فاقے ہیں اور تین دن سے بچے بھوکے ہیں اور ماں ان کو بہلانے کے لیے خالی ہانڈی میں چمچ پھیر رہی ہے۔ آپؓ فوراً واپس آئے، بیت المال سے آٹا، گھی، گوشت اور کھجوریں لیں اور اپنی پیٹھ پر اٹھا کر خود ان کے گھر پہنچے اور عورت سے کہا کہ کھانا پکاکر بچوں کو کھلائو۔ جب تک بچوں نے کھانا نہ کھالیا، آپؓ وہاں بیٹھے رہے۔ عورت اس حسن سلوک سے بہت متاثر ہوئی اور کہا کہ امیر المومنین ہونے کے مستحق آپ ہیں نہ کہ عمر۔ ایک بار ملک شام کے سفر پر تھے۔ ایک خیمہ دیکھ کر آپؓ رکے اور ایک بڑھیا سے اس کا حال پوچھا کہ امیرالمومنین عمرؓ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ بڑھیا نے کہا مجھے اس کے ہاں سے آج تک کچھ نہیں ملا۔ آپؓ نے فرمایا کہ آپ اتنی دور ویرانے میں رہتی ہیں، عمر کو آپ کے حال کا کیا علم؟ بڑھیا نے جواب دیا اگر ہم جیسے لوگوں کا حال معلوم نہیں تو خلافت کیوں کررہا ہے۔ یہ سب سن کر آپ رو پڑے۔ آپؓ رعایا کی تکلیف پر بہت پریشان ہوجاتے۔ 18 ہجری میں جب عرب میں قحط پڑا تو آپؓ نے گوشت، مچھلی اور تمام لذائز اپنے لیے ترک کردیے۔ بیت المال کا تمام مال متاثرین میں تقسیم کردیا اور بار بار بطور انکساری کہتے کہ ایسا میری شامت اعمال کی وجہ سے ہے۔ پھر آپؓ نے صوبوں کے تمام گورنرز کو لکھا کہ غلہ، کھانے پینے کی اشیاء اور لباس بھیجیں۔ سیدنا ابو عبیدہ بن جراحؓ نے شام سے ایک ہزار اونٹ، عمرو بن العاصؓ نے مصر سے 20 جہاز غلہ بھیجا۔ زید بن ثابتؓ نے قحط زدہ لوگوں کی فہرست بنائی اور تمام متاثرین میں تقسیم کیا اور جب تک وہ اس مصیبت سے نہ نکلے ان کی مدد جاری رکھی۔
آج میں پاکستان کے وزیر عظم شہباز شریف اور مدینہ کی ریاست کے دعوے دار عمران خان کو دیکھتا کو تو وہ حکومت حاصل کرنے کے لیے تو مصروف ہیں لیکن انہیں چولستان میں مرتے ہوئے انسان اور جانور نظر نہیں آرہے کاش اگر عمران خان اپنے ایک جلسے کو منسوخ کرکے اور شہباز شریف دورہ انگلینڈ کو منسوخ کردیتے اور وہ رقم وقف کردیتے تو چولستان کے سسکتے لوگوں تک کھانا اور پانی پہنچایا جا سکتا تھا۔ لیکن انہیں تو حکومت حاصل کرنے کی فکر تھی۔
دوسری طرف سراج الحق نے الخدمت فاونڈیشن نے ادویات اور پانی کے ٹینکر روانہ کر دیے ہیں جس نے واقعی سیدنا عمر فاروقؓ کے دور کی یاد زندہ کر دی ہے۔ وطن عزیز میں کوئی بھی آفت آتی ہے زلزلہ ہو یا سیلاب ابھی ماضی قریب مری جاتے ہوئے لوگ مر رہے تھے حاکم وقت سورہا تھا لیکن الخدمت فاؤنڈیشن لوگوں کی زندگیاں بچانے میں مصروف تھی۔
آپ سے گزارش ہے الخدمت فاؤنڈیشن جو پانی کی فراہمی کے لیے برسرپیکار ہے اس کے ساتھ مل کر اس کارخیر میں حصہ ڈالیں، واٹر ٹینکر کے لیے 15ہزار روپے، ہینڈ پمپ کے لیے 90ہزار، سبمر سیبل واٹر پمپ کے لیے 170ہزار روپے الخدمت کے اکائونٹ میں جمع کرائیں۔