کراچی ( رپورٹ \محمد علی فاروق ) قوم زوال پذیر ہوتی ہے تو اس میں برداشت، رویوں سے تہذیب شائستگی اخلاق وکردار، صبر وتحمل، عفو ودرگزر اور احترام آدمیت ختم ہوجا تا ہے، عدالتیںاور حکومت انصاف کی فراہم میں ناکام ہو جائیں تو عوام میںنفرت چڑ چڑا پن، عدم برداشت اور قانون شکنی جیسے رویے پرورش پاتے ہیں، قناعت پسندی کا ختم ہونا اور ناشکری کی عادت کا بڑھ جانا بھی عدم برادشت کو ہی جنم د ے رہا ہے، سیاستدان بد زبانی بد تہذیبی اور عدم برداشت کا سبق دے کر قوم کو تباہ کن تقسیم کا شکا ر کر رہے ہیں، معاشرے کے معیارات، مذہبی ومسلکی، تہذیب وثقافت، عوامی تعلقات اور اپنے اہداف میں اپنی رائے کو ہمیشہ مقدم سمجھنا اورانصاف کا فقدان، غیر منصفانہ رویے، لاقانونیت بھی معاشرے میں عدم برداشت کا موجب بنتی ہے، سوئیٹزر لینڈ کے بینک جو دولت سے بھر ے پڑ ے ہیں وہ بھی مزید دولت کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں، معاشرے کے عام لوگ جب اپنے رہنماؤں کی لگژی زندگی کو دیکھتے ہیں معاشرہ مادہ پرستی اور دولت کی ہوس میں مبتلا ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں عدم برداشت جنم لیتی ہے۔ ان خیالا ت کا اظہار جماعت اسلامی پاکستان خواتین ونگ کی سیکرٹری جنرل دردانہ صدیقی، جامعہ کراچی کی شعبہ نفسیات کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال اور جامعہ کراچی شعبہ صحافت کے پروفیسر ڈاکٹر نوید اقبال نے جسارت سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ جماعت اسلامی پاکستان خواتین ونگ کی سیکرٹری جنرل دردانہ صدیقی نے کہا کہ معاشرے میں عدم براداشت کے بڑھتے ہوئے رویے ایک تلخ حقیقت ہے جب بھی کوئی قوم زوال پذیر ہوتی ہے تو اس میں برداشت اور رویوں سے تہذیب شائستگی اخلاق وکردار اور صبر وتحمل ختم ہوجاتا ہے، تعمیری سوچ کے بجائے تخریبی سرگرمیاں قوموں کا محور بن جاتی ہیں اس وقت وطن عزیز میں عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی چھوٹی بات پر باہمی احترام رواداری سلح جوئی اور امن وآتشی کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے اس کے باعث نفرتیں قتل وغارت کے ایسے سانحات جنم لے رہے ہیں، صبر وتحمل، عفو ودرگزر اور احترام آدمیت دین کی بنیا دی اخلا قیات میں شامل ہیں، جب معاشرہ دین سے دور ہوگا اور دین کو محض رسومات بنا دیا جائے گا تو ایسے رویے عام ہوجائیں گے، قرآن وسنت رسولؐ کی تعلیمات کو اجتماعی اور انفرادی طور پر دستو ر نہیں بنا ئیں گے تو بحثیت قوم بے راہ روی کا شکا ر رہیں گے اور عدم برداشت وانتہا پسندانہ رویے ہماری زندگیوں کا خاصہ بن جائیں گئے۔ معاشرے کی تربیت اور خلا ق کی تعمیر میں میڈیا کا بڑا کردار ہے، آج کی نوجوان نسل قلم اور کتاب سے زیادہ سوشل میڈیا اورانٹرنیٹ سے استفادہ حاصل کر رہی ہے، لہٰذا نوجوان نسل کی تربیت میں ہمارے ادارے اور ذرائع انتہا درجے کی کوتاہی کا شکا ر ہیں، المیہ یہ ہے کہ تربیت کرنے والے اداروں کو خود تربیت کی ضرورت ہے، دردانہ صدیقی نے کہا کہ میڈیا کا منفی کردار ہے جن میں اختلاف رائے کو لڑائی جھگڑے اور مارکٹائی تک پہنچا دیا گیا ہے، ایک دوسرے کو برادشت اور عفو ودر گزر کرنے کے بجائے خود غرضی اور ہوس پرستی کا درس سر عام دیا جا رہا ہے رشتوںکے درمیان انسیت اور محبت اخوت باہمی اعتماد کے بجائے دراڑیں ڈالنے والے پہلو نمایاں کیے جا رہے ہیں یہ تمام اخلاقی گراوٹ غیر محسوس طریقے سے ہماری معاشرتی اقتدار کا حصہ بنتی جا رہی ہیں، معاشرے میں ایک عنصر جو عدم برداشت کو بڑھا رہا ہے وہ مہنگائی کے ساتھ ساتھ لا قانونیت اور بروقت انصاف کی فراہمی کی عدم دستیابی ہے، ریاست کی ایک اہم ذمے داری یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کا حق اور انصاف اس کی دہلیز پر فراہم کیا جائے، لیکن جب عدالتیں اور حکومت انصاف کی فراہمی میں ناکام ہوتی ہیں تو عوام میںنفرت چڑ چڑا پن، عدم برداشت اور قانون شکنی جیسے رویے پرورش پاتے ہیں، ہر ایک اپنی رائے اور نظریے کو متشددانہ حدتک آخری اور حتمی سمجھتا ہے دوسرے کی بات نہ سننا اور نہ ہی اپنے رویو میں اس حوالے سے کسی قسم کی لچک پیدا کرنا اپنی غلطی ماننے میں عار محسوس کرنا، فروعی معاملا ت میں الجھے رہنا قوم کا شعار بن گیا ہے، دردانہ صدیقی نے کہا کہ اخلاقی تربیت میں کمزوری کے ساتھ معاشرے میں قناعت پسندی کا ختم ہونا اور ناشکری کی عادت کا بڑھ جانا بھی عدم برادشت کو ہی جنم د ے رہا ہے ،مادہ پرستی بھی ان ہی عوامل میں سے ایک ہے مادہ پرستانہ معاشرے میں جب پیسہ کمانے کا دھن ہو والدین بھی معاشی ضروریا ت پوری کرنے کے لیے اخلاقی تربیت کو ترجیح نہ دیں اور دولت کا ارتکا ز ایک طبقے کی طرف ہو دوسرے لوگ محرومیوں کا سامنا کر رہے ہوں اور اس کے لیے کسی دوسرے کو دھکا دے کر اپنا ہدف حاصل کر لیا جائے، تو ردعمل میں عدم برداشت کا رویہ پیدا ہوتا ہے، سیاستدان بد زبانی بد تہذیبی اور عدم برداشت کا سبق دے کر قوم کو تباہ کن تقسیم کا شکا ر کر رہے ہیںعام آدمی کو حجان میں مبتلا کر دیا ہے جبکہ حقیقی قیادت وہ ہوتی ہے کہ جو بھکرے ہوئے افراد کو جو ڑ کر قوم کی شکل دیتی ہے اور وہ قوم جو دنیا کی قوموں میں ایک باوقار مقام حاصل کرسکتی ہے لہذا جہا ں اداروں کی تربیت کی اصلا ح احوال درکا ر ہے وہیں سیاسی قیادت کی تربیت بھی درکا ر ہے جو اپنے پیچھے اپنے پیروکاروں کا ایک قافلہ رکھتی ہے جو رویے ان کو اپنی قیادت کی جانب سے ملتے ہیں انہیں وہ اختیا ر کرکے معاشرے میں کوئی مثبت اور منفی حوالہ بنتی ہے، جامعہ کراچی کی شعبہ نفسیات کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال نے کہا کہ عدم برداشت کو سمجھنے کی ضرورت ہے اس میں انسان اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر سمجھنے لگتا ہے خود سے منسوب کسی دوسرے کی رائے اور رویوں کو تسلیم نہیں کرتا ایسا انسان اپنی ہر بات کو درست سمجھتا ہے اپنی رائے کو ہمیشہ مقدم رکھتا ہے اس کی نظر میں اس کی رائے کے علاوہ ہر چیز غلط ہے ، ایسے شخص کو کسی بھی بات پر قائل کیا جائے تو وہ ہائیپر ہونے لگتا ہے ، ایسا شخص معاشر ے کے انسانوںکی زندگیوںپر مختلف اندازمیں اثر انداز ہوتا ہے عدم برداشت کی بہت سے اقسام ہیں اس میں رویوں کے علاوہ پسند نا پسند، معاشرے کے مختلف معیارات کو درست سمجھنا اس کے خلاف کسی چیز کو نہ ماننا ہے۔ معاشرے کے معیارات میں مذہبی ومسلکی، تہذیب وثقافت، عوامی تعلقات اور اپنے اہداف بھی شامل ہیں، ان مندرجہ بالا چیزوں کو اپنی رائے کے مطابق درست سمجھنے کی وجہ سے ہی عدم برداشت پیدا ہوتا ہے، انسانوں کی سوچ درست نہ ہونا ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی دوڑ، معاشرے میںانصاف کا فقدان، غیر منصفانہ رویے، لاقانونیت بھی معاشرے میں عدم برداشت کا موجب بنتی ہے یہی وجہ ہے کہ معاشرہ سہولیات کی کمی کا شکار ہوجاتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر فرح اقبال نے کہا کہ انسانی رویے میں تبدیلی دراصل گھروں سے ہی شروع ہوتی ہے، والدین کا آپس میں رویہ، بہن بھائیوں کا آپس کا تعلق اور عزیز واقارب کے غیر اخلاقی رویے بچوں کی ذہنی صلاحیت کو ماند کر دیتے ہیں، گھروں میں والدین غیر محسوس انداز میں ایک بچے کو دوسرے بچے کے مد مقابل زیادہ نوازنے کا عمل مد مقابل بچے کو عدم برداشت اور ساتھ ہی احساس کمتری کا شکار کردیتا ہے اور وہ خود کو معاشرے کا بیکار فرد سمجھنے لگتا ہے، پھر اس میں غصہ بھر جاتا ہے جومعاشرے میں دھونس دھاندلی کی صورت میں سامنے آتا ہے اسی کیفیت میں انسان دوسرے انسان کی پوری بات سنے بغیر کسی ایک بات پر اپنے ذہن کے مطابق نتیجہ اخذ کر لیتا ہے کسی بات کو پکڑ کر جذباتی ہوجاتا ہے، بنیادی طور پریہ بے چینی واضطراب مخالف رائے کے اظہار پر دشمنی میں بدل جاتی ہے اصل معاملہ پس پشت چلے جاتاہے اس طرح کے رویے ہی معاشرے میں عدم برداشت کا موجب بنتے ہیں۔جامعہ کراچی شعبہ صحافت کے پروفیسر ڈاکٹر نوید اقبال نے کہا کہ عدم برداشت کا براہ راست تعلق صبر، شکر، قناعت، عفو ودرگزر سے ہے اور ان تعلیمات کا تعلق مذہب سے ہے‘ مذہبی تعلیمات بتاتی ہیں کہ جب کسی انسان کے ساتھ کسی جانب سے زیادتی ہوتی ہے تو وہ اخلاقیات کا دامن چھوڑتے ہوئے خود سے بدلہ لینے کے بجائے مروجہ نظام سے انصاف طلب کر ے، اگر اسے انصاف نہیں ملتا تو ہائیپر ہونے کے بجائے صبر کا دامن تھا مے رکھے ایک ذات ایسی موجود ہے جہاں ہر حالت میں انصاف کیا جاتا ہے وہ بغیر بتائے سب کچھ جانتا اور سنتا ہے وہ ذات بہتر انصاف کرے گی،اسی طرح مذہب یہ تصور بھی دیتا ہے کہ دنیا میں انسان کو جو کچھ ملے اس پر شکر ادا کرے اور جو نہ مل سکا اس پر صبر کرے، بنیادی طور پر یہی تصورات انسان میں برداشت کا مادہ پیدا کر تے ہیں درحقیقت ہمارا پورا معاشرہ قناعت، شکر، صبر، عفو ودرگزرکی مذہنی تعلیمات کو نظر انداز کر چکا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر نوید اقبال نے کہا کہ دنیا پرستی اور مادہ پرستی کی طرف رجحان بڑھ رہا ہے جس کے پاس سائیکل ہے وہ موٹر سائیکل کا خواہشمند ہے اور جس کے پاس موٹر سائیکل ہے وہ موٹر کار کا طلب گار ہے اور موٹر کار والا لگژری گاڑی کا شوقین ہے، ہر انسان اپنی موجودہ تنخواہ یا وسائل سے زیادہ کا طللب گار نظر آتا ہے، سوئیٹزر لینڈ کے بینکو ں میں جن کی دولت بھری پڑی ہے وہ بھی مزید دولت کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں، معاشرے کے عام لوگ جب اپنے رہنماؤں کی لگژی زندگی کو دیکھتے ہیںاور میڈیا بھی صبح شام پُرآسائش اور مادہ پرستی کی زندگی کی طرف مائل کرتا ہے تو پورا معاشرہ مادہ پرستی اور دولت کی ہوس میں مبتلا ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں عدم برداشت جنم لیتی ہے مغرب کی طرح اب ہمارے معاشرے میں بھی بزرگ افراد کے لیے اولڈ ہاؤسز بن گئے ہیں جو بھرے پڑے ہیں جب معاشرے کے افراد اپنے والدین کے لیے ہی برداشت کا مادہ نہ رکھتے ہوں تو پھر بھلا وہ کسی اور کے لیے کیسے رکھیں گے، ایسے معاشرے میں ہم یہ کیسے توقع کر سکتے ہیںکہ برداشت کا مادہ پیدا ہوجائے ظاہر ہے ان حالات میں معاشرے میںعدم برداشت بڑھے گی۔