بہاولپور/لاہور(نمائندگان جسارت) امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ ملک کی کشتی بھنور میں بری طرح پھنس چکی، پاکستان کو اس نہج پر لانے والی تینوں بڑی جماعتیں اور ان کے سرپرست ہیں۔ بڑی حکمران اور اور اپوزیشن جماعتیں 22کروڑ عوام کے خلاف سازش کر رہی ہیں۔ اسلام آباد کے ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کر سیاست کرنے والے عوام کے ساتھ کھیل کھیل رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو خبردار کرتا ہوں کہ سری لنکا جیسی صورت حال سے عبرت حاصل کریں۔ پرامن احتجاج ہر سیاسی جماعت کا آئینی و جمہوری حق ہے۔ گرفتاریاں اور سیاسی کارکنوں کے گھروں پر چھاپے نہ مارے جائیں۔ پولیس نوجوان کی شہادت افسوس ناک، اہل خانہ سے تعزیت کرتے ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے لیڈران اپنے کارکنوں کے رویوں کا جائزہ لیں۔ گالم گلوچ کی سیاست نے پاکستان کے کلچر کو تباہ کر دیا۔ سیاست دشمنی اور تشدد میں بدل گئی، حکمران جماعتیں برابر کی ذمے دار ہیں۔ سنجیدہ طرز عمل نہ اپنایا گیا تو انارکی مزید بڑھے گی۔ معیشت اور سیاست میں بہتری کے لیے قومی ڈائیلاگ کا آغاز ہونا چاہیے۔ حکمران مان لیں کہ ڈیلیور نہیں کر سکتے، ان کے چراغوں میں تیل ختم اور الفاظ زبان کا ساتھ نہیں دے رہے۔ اندرون و بیرون ملک محلات میں رہنے والے حکمرانوں کو ملک کی کوئی فکر نہیں، پریشان وہ ہے جو ساڑھے 3 سو روپے کلو دال اور ساڑھے 5 سو روپے کلو گھی خریدتا ہے۔ گزشتہ 2،3 برس میں 5 سو گنا تو صرف دوائیوں کی قیمت میں اضافہ ہوا، مسئلہ عوام کا ہے حکمرانوں کا نہیں۔ آئیے مل کر شہزادوں، لاڈلوں،نواب زادوں، امریکی یاروں اور وفاداروں کے سیاست کا خاتمہ کریں۔ مقصد کے حصول کے لیے پرامن اور بھرپور جدوجہد کی ضرورت ہے۔ امید رکھتا ہوں کہ پاکستان کے عوام جنھوں نے جرنیلوں کی حکومتوں کو بھی دیکھا اور مافیازکے ایجنٹوں کو بھی، اب ایک موقع اسلامی نظام کو بھی دیں گے۔اسلامی نظام کوڑے مارنے کا نہیں بلکہ عدل و انصاف، برابری، خوشحالی اور امن کا نام ہے۔ موجودہ نظام یہ ہے کہ لیڈر کا بیٹا لیڈر اور مزدور کا بیٹا مزدور رہے۔ قوم کوسمجھنا چاہیے کہ کیا انھیں باعزت روزگار، لباس اور چھت کی ضرورت نہیں اور کیا غریب عوام نسل در نسل حکمران اشرافیہ کی غلام ہی بن کر رہے گی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے غلام اور ابن غلام پاکستان پر مسلط ہیں، وقت آ گیا ہے ان سب سے چھٹکارا حاصل کیا جائے، راستہ پرامن جمہوری جدوجہد ہے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے بہاولپور میں شمولیتی جلسے، میڈیا سے گفتگو اور وہاڑی میں علی وقاص ہنجرا کی جانب سے استقبالیہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ بہاولپور جلسے میں علاقے کی ممتاز شخصیت ملک کامران نے دیگر افراد کے ساتھ جماعت اسلامی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ امیر جماعت نے انھیں جماعت اسلامی کا ساتھ دینے اور ملک میں اسلامی نظام کے لیے جدوجہد کا آغاز کرنے پر مبارک باد دی۔امیر جماعت کا کہنا تھا کہ تینوں جماعتیں چاہتی ہیں کہ عدالتیں ان کی پسند ناپسندپر فیصلے دیں۔ حکمران جماعتوں نے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کیا۔ یہ سب امریکا کے آشیرباد چاہتے ہیں اور واشنگٹن سے اتنے خوف زدہ بھی ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے رسماً مطالبہ بھی نہیں کیا۔ پی پی پی، ن لیگ کو بھی موقع ملا اور پی ٹی آئی کے چیئرمین نے بھی خود تسلیم کیا ہے کہ ان کی ٹرمپ کے ساتھ دوستی تھی، سابق وزیراعظم سے پوچھتاہوں کہ اگر ان کی امریکی صدر سے دوستی تھی تو قوم کی بیٹی کی رہائی کا معاملہ ان کے سامنے کیوں نہیں اٹھایا؟ تینوں بڑی پارٹیوں کا ایک اور بڑا جرم یہ ہے کہ انھوں نے کشمیر پر پسپائی دکھائی اور اسے بھارت کے حوالے کیا۔ پرویز مشرف نے کشمیر کو تقسیم کرنے کے لیے باڑ لگائی، ان کے بعد کی 2 حکومتوں نے اس پر چشم پوشی کی اور پی ٹی آئی حکومت کے دوران بھارت نے 5اگست 2019ء مقبوضہ کشمیر کی ریاستی حیثیت ختم کر کے اس پر مکمل قبضہ کر لیا۔ سابق وزیراعظم نے اس وقت اعلان کیا کہ جو کوئی بھی کشمیریوں کی حمایت کے لیے ایل او سی کی طرف جائے گا وہ غدار ہو گا۔ سوال پوچھتا ہوں کہ کیا کشمیریوں کی تحریک آزادی کی حمایت کرنا غداری ہے؟ حکمران جماعتیں ملکی معیشت کی تباہی کی برابر کی ذمے دار ہیں۔ پاکستان کو آئی ایم ایف کے حوالے کرنے والی یہی حکمران اشرافیہ ہے جو ماضی میں بھی اور اب بھی قوم پر مسلط ہے۔ جماعت اسلامی کب سے کہہ رہی ہے کہ حکمران جماعتوں کی پالیسیوںمیں کوئی فرق نہیں۔ ایک حکمران نے پاکستانیوں کے قاتل ریمنڈ ڈیوس کو امریکا کے حوالے کیا، دوسرے نے ملک پر حملہ کرنے والے ابھی نندن کو باعزت رہائی دی اور تیسرے نے مغرب کے کہنے پر توہین رسالت کی مرتکب آسیہ کو بیرون ملک پہنچایا۔ ملک پر مسلط جاگیرداروں اور وڈیروںکی سوچ اور پالیسیاں یکساں، سب مفادات کے اسیر اور اپنے بچوں اور خاندان کے لیے مال جمع کر رہے ہیں۔ حکمران طبقہ اپنے بچوں کو ہماری نسلوں پر مسلط کر رہا ہے، انھیں وزارتیں مل رہی ہیں اور ایوانوں میں لایا جا رہا ہے۔یہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے، ملک کے لیے ایک قطرہ خون کا نہیں بہایا۔ سوال پوچھتا ہوں کہ کیا موجودہ حکمرانوں کے ابائواجداد نے ملک آزاد کرایا تھا؟ قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ محلات میں رہنے والے کبھی غریب کے غم خوار نہیں ہو سکتے۔ دعوے سے کہتا ہوں کہ ہمارے حکمرانوں کے اثاثے لے کر قومی خزانے میں جمع کر دیے جائیں تو ملک کا تمام قرض ختم ہو جائے گا۔ حکمرانوں سے سوال ہے کہ کیا ان کے 4 ہاتھ ہیں یا2 دماغ کہ آپ کے کارخانوں، شوگر ملوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور غریب نان شبینہ کا محتاج ہے۔ چولستان گیا ہوں، دیکھا کہ پانی کی بوند بوند کے لیے لوگ ترس رہے ہیں۔ حکمرانوں کے جانور ٹھنڈے کمروں میں رہتے ہیں اور درآمد شدہ خوراک کھاتے ہیں جب کہ چولستان کے عوام اور جانور ایک جگہ سے پانی پی رہے ہیں۔ دنیا کے پانچویں بڑے جنگل بلوچستان میں گزشتہ کئی دن سے آگ لگی ہے، لیکن کسی حکمران کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ غریبوں کا درد بانٹے۔ آگ کو بجھانے کے لیے کوئی نہیں گیا اس لیے حکمرانوں کے درمیان آپس میں مفادات کی آگ لگی ہوئی ہے۔ حکمران جاننے کی کوشش کریں کہ بلوچستان کے عوام ان سے تنگ کیوں ہیں؟ حکمرانوں کے ظلم اور جھوٹ کی وجہ سے ہمارا نظام کھوکھلا ہو چکا ہے۔ حکمران جماعتوں نے کراچی کا مسئلہ حل نہیں کیا، قبائلی علاقوں کے عوام کے ساتھ دھوکا کیا اور جنوبی پنجاب کے رہائشیوں سے جھوٹ بولا۔ کیا وقت نہیں آیا کہ نوجوان پاکستان کو اسلامی اور خوشحال بنانے کے لیے جماعت اسلامی کا ساتھ دیں۔ اگر ملک جمہوری بنیاد پر چل کر کامیاب ہو سکتا ہے، تو جماعت اسلامی پاکستان کی حقیقی جمہوری جماعت ہے۔ اگر ملک کو مضبوط نظریے کی ضرورت ہے تو جماعت اسلامی حقیقی نظریاتی جماعت ہے۔ اگر قوم کو عدل و انصاف کی ضرورت ہے تو جماعت اسلامی حقیقی عدل کا نظام قائم کر سکتی ہے۔ جماعت اسلامی نے سود کے خلاف طویل جنگ لڑی اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں کامیابی دی۔ اگر حکمرانوں نے سود جاری رکھنے کی کوشش کی تو ان کا گریبان ہو گا اور قوم کا ہاتھ۔