اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کارکنان کو ہراساں کرنے سے روک دیا

316

اسلام آباد (صباح نیو ز+آن لائن) اسلام آباد ہائیکورٹ نے اسلام آباد کی انتظامیہ تحریک انصاف کے کارکنان کو غیر ضروری ہراساں کرنے سے روک دیاہے اور کیس میں آئی جی اسلام آباد اور چیف کمشنر اسلام آباد کو نوٹس جاری کرکے 27،مئی تک جواب طلب کرلیا ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے تحریک انصاف کی کارکنوں کی گرفتاریوں اور راستوں کی بندش کے خلاف پی ٹی آئی کے رہنما عامر کیانی کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت عظمیٰ کا دھرنا کیس کا فیصلہ ہے ہم اسی کے مطابق ہدایات دے دیتے ہیں ، 2014ء میں حکومت سے اجازت لے کر دھرنا ہوا تھا تب عدالت نے آرڈر کیا تھا، اس وقت عدالت کے سامنے پٹیشن آئی تھی کہ گرفتاریاں کی جا رہی ہیں اس لیے آرڈر کیا تھا، کچھ عرصہ قبل پارلیمنٹ لاجز میں بھی ممبران قومی اسمبلیز کو ہراساں کیا گیا تھا، یہ تو حکومت کو دیکھنا چاہیے جو آئینی حق ہے پرامن طریقے سے کرنے دینا چاہیے، پرامن احتجاج آپ کا حق ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 2014 کے آرڈر کے بعد پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر حملہ ہوا ، ایک سینئر پولیس آفسر کوتشددکرکے زخمی کیا گیا تھا، اس وقت ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا گیا تھا ، کیا 2014 ء کے دھرنے کے بعد جو ہوا اس کی ذمے داری عدالت لے سکتی تھی ؟ جس نے بھی کیا تھا اس کو آج تک کسی نے پکڑا نہیں ہے ، اس لیے عدالت کو محتاط ہونا پڑتا ہے ۔علاوہ ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ نے شیریں مزاری گرفتاری کیس میں تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کے لیے آئندہ پیر تک مہلت دے دی ہے ۔دوران سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ اگر سیاسی جماعتیں آپس میں بیٹھ کر بات نہیں کریں گی تو عدالت کیا کرے؟ عدالت فیصلہ دیتی ہے مگر اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا، عدالت ریاست کی جانب سے اختیارات کا مسلسل غلط استعمال دیکھ رہی ہے، ہر ریاستی ادارے کو اب پرو ایکٹو رول ادا کرنا چاہیے۔مزید برآں اسلام آباد ہائی کورٹ چیف جسٹس اطہر من اللہ ،جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل لارجر بینچ نے عمر سرفراز چیمہ کی بطور گورنر پنجاب برطرفی کے خلاف درخواست پر سماعت کی ۔عمر سرفراز چیمہ اپنے وکیل بابر اعوان ایڈووکیٹ کے ساتھ عدالت کے سامنے پیش ہوئے ۔دوران سماعت پی ٹی آئی وکیل کو سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ کیسے ممکن ہے گورنر کی تعیناتی کے لیے وزیراعظم صدر کو ایڈوائس دے مگر اسے ہٹانے کا اختیار نہ ہوجس پر بابر اعوان ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ گورنر کسی بھی صوبے میں صدر کا ایجنٹ ہوتا ہے اس موقع پر جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا آپ کہنا چاہتے ہیں کہ صدر گورنر کے ذریعے صوبہ چلاتا ہے؟ جس پر بابر اعوان ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ صوبہ نہیں، گورنر ہاؤس چلاتا ہے اور صدر کی خوشنودی سے کام کرتا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو پھر یہ تعیناتی وزیراعظم کی ایڈوائس پر کیوں ہوتی ہے؟ اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ گورنر مجلس شوری کا ممبر نہیں ہوتا کس کی نمائندگی کرتا ہے؟ عدالت نے عمر سرفراز چیمہ کی بطور گورنر برطرفی پر اٹارنی جنرل کو معاونت کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت آج بدھ تک ملتوی کر دی۔