پاکستانی سیاست میں لانگ مارچ کی ابتداء 92 میں ہوئی،بینظیر نے نوازشریف کیخلاف مارچ نکالا

205

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) پاکستان کی 90 ء کی دہائی سے شروع ہونے والی سیاست میں لانگ مارچ کا اہم کردار رہاہے، جس کی ابتداء پاکستان کی 2 مرتبہ وزیر اعظم رہنے والی نظیر بھٹو نے نواز شریف کی حکومت کے خلاف 1992ء میں کی، اس لانگ مارچ کا آغاز لاہور سے ہوا تھا، بینظیر نے اعلان کیا تھاکہ 18 نومبر کو ایوان صدر اور پارلیمنٹ کا گھیراؤ کیا جائے گا، اس طرح پاکستانی سیاست میں لانگ مارچ کی اصطلاح متعارف ہوئی اس لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے حکومت نے غیر معمولی اقدامات کیے، پولیس کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئیں اور اسلام آباد کو فوج کی تحویل میں دے دیا گیا۔ اسلام آباد میں بے نظیر بھٹو کی رہائش گاہ کا گھیراؤ کر لیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود وہ راولپنڈی پہنچنے میں کامیاب رہیں۔یہ لانگ مارچ بظاہر ناکام رہا، بے نظیر بھٹو لیاقت باغ پہنچیں تو ان کے ساتھ ایک 2 ہی گاڑیاں تھیں، باوجود اس کے کہ لانگ مارچ ناکام ہو گیاتاہم نواز حکومت اس کے باوجود گھبراہٹ کا شکار ہو گئی تھی۔ اسلام آباد کے تحفظ کے لیے فوج کو دعوت دینے سے اس کی کمزوری عیاں ہو گئی۔ یہی اس لانگ مارچ کا منفرد پہلو تھا ۔بے نظیر بھٹو نے دوسرے لانگ مارچ کی منصوبہ بندی اگلے ہی برس یعنی 1993ء میں ایک اور مارچ کی منصوبہ بندی کی تاہم یہ مارچ ہوئے بغیر ہی نتیجہ خیز رہا، کچھ دنوں کے بعد نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا، کہا جاتا ہے اس نواز حکومت کے خلاف دوسر ے مارچ کے بارے میں پاک ٖفوج کے سابق سربراہ مرزا اسلم بیگ کا کہنا تھاکہ نواز حکومت کے خلاف اپنے پہلے ناکام مارچ کے بعد 1993 میں بے نظیر بھٹو نے ایک اور لانگ مارچ کی منصوبہ بندی کی جو شروع ہوا لیکن اس سے پہلے کہ وہ اسلام آباد پہنچتیں اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے ان کے لیے راہ ہموار کروا دی تھی اور مداخلت کر کے اس شرط پر صدر اور وزیر اعظم کو اقتدار سے علیحدہ ہونے پر راضی کرلیا تھا کہ وہ 90 دن کے اندر انتخابات کرادیں گے۔نواز شریف حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے اپنی دوسری حکومت بنائی۔ بے نظیر بھٹو کی اس حکومت کے خلاف قاضی حسین احمد نے دھرنا دیا جو نتیجہ خیز ثابت ہوا اور اس حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔اس دھرنے کی کامیابی کا راز بھی اس کا مناسب ہوم ورک تھا لیکن اس ہوم ورک کی نوعیت جنرل مرزا اسلم بیگ کے بتائے ہوئے ہوم ورک سے مختلف تھی۔جماعت اسلامی کی تاریخ کے ماہر اور مولانا مودودیؒ کے جاری کردہ جماعت کے نظریاتی ترجمان ’ترجمان القرآن‘ کے مدیر پروفیسر سلیم منصور خالد نے بتایا: ’جماعت اسلامی نے پاکستان اسلامی فرنٹ بنا کر 1993 کے انتخابات میں حصہ لیا تو اس سے پیپلز پارٹی مخالف ووٹ تقسیم ہوگئے۔ یوں بے نظیر بھٹو دوبارہ اقتدار میں آ گئیں۔ اب پیپلز پارٹی مخالف پریس کا جماعت اسلامی پر یہ مسلسل دباؤ تھا کہ ’’تم ہی نے درد دیا ہے، تم ہی دوا دو گے۔ دوسری طرف ملک میں بدانتظامی اور بدعنوانی کے قصے زبان زد عام تھے اور ہر مبینہ قصے کا آغاز اور انتہا آصف زرداری پر ہوتی۔ ان حالات میں جماعت اسلامی راولپنڈی میں بے نظیر حکومت کے خلاف زوردار احتجاج کر کے اپنے کارکنوں کو یکسو کر چکی تھی۔ ستمبر 1996ء میں میر مرتضیٰ بھٹو قتل کر دیے گئے، اکتوبر کے آتے آتے پاکستان پیپلز پارٹی کے ناراض عناصر اور ترقی پسند لیڈروں کا ایک مؤثر دھڑا بھی اس حکومت کے خاتمے پر یکسو ہو گیا، ’اس دھرنے کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد نومبر کے پہلے ہفتے میں صدر لغاری نے بے نظیر حکومت کو معزول کر بھٹو صاحب کے دست راست اور پیپلز پارٹی کے ترقی پسند عنصر کی قابل احترام شخصیت ملک معراج خالد کی قیادت میں عبوری حکومت قائم کردی، بے نظیر حکومت کے خاتمے کے بعد نواز شریف حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے، جس کا خاتمہ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف کیا 2007ء میں پرویز مشرف نے اپنی حکومت پر بڑھتے ہوئے دبائو کے خاتمے کے لیے ملک میں ایمرجنسی کا نافذ کردی اس دوران جنرل پرویز مشرف نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری کو معزول کر دیا تو اس کے خلاف وکلاء نے افتخار محمد چودھری کی قیادت میں ملک بھر میں مارچ کیا۔ اس تحریک کے دوسرے مرحلے میں ایک اور ملک گیر لانگ مارچ ہوا، اسلام آباد میں جس کا اختتام ایک جلسے پر ہوا۔ عدلیہ بحالی تحریک کی یہ دونوں مہمات ناکام رہیں۔ عدلیہ بحالی تحریک ہی کے سلسلے میں تیسری کوشش لانگ مارچ ہی کے عنوان سے ہوئی۔ یہ لانگ مارچ سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی زیر قیادت ہوا،سلمان غنی کے مطابق یہ لانگ مارچ ابھی کامونکی تک ہی پہنچا ہو گا کہ میاں نواز شریف سے فوج کے سربراہ نے رابطہ کر کے انہیں یقین دلایا کہ ججوں کو بحال کیا جا رہا ہے۔ اس لیے آپ مارچ کو وہیں روک دیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس لانگ مارچ کو ایک عہد کا اختتام اور ایک نئے دور کی ابتدا سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اس کامیاب سیاسی سرگرمی کے بعد 2013 میں ایک بڑی سیاسی سرگرمی علامہ طاہر القادری کی طرف سے ہوئی۔ ان کی جماعت پاکستان عوامی تحریک نے 2013ء میں عین عام انتخابات کے اعلان سے قبل اسلام آباد میں ایک دھرنا اس اعلان کے ساتھ دیا کہ اس میں 50 لاکھ افراد شرکت کر رہے ہیں،تاہم چند ہزار افراد پر مشتمل یہ دھرنا کسی کامیابی کے بغیر ختم ہو گیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے علامہ صاحب کو فیس سیونگ دینے کے لیے مسلم ق کی قیادت کے ذریعے اس سے مذاکرات کیے۔ طاہر القادری اس دھرنے کے لیے 2013ء کے انتخابات کو رکوانا چاہتے تھے لیکن یہ کوشش ناکام رہی۔اس کوشش کی ناکامی کے بعد طاہر القادری ایک برس کے بعد یعنی اگست 2014 میں دوبارہ ماضی جیسے ہی ایک جلوس کے ساتھ جسے لانگ مارچ کا نام دیا گیا تھااسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے، اس بار پاکستان تحریک انصاف بھی ان کے شانہ بشانہ اسلام آباد پہنچی۔ طاہر القادری نے اپنی تقریروں میں نظام کو لپیٹ دینے کے مطالبات کیے۔ ان کے مقابلے میں پاکستان تحریک انصاف کے مطالبات کی نوعیت زیادہ سیاسی تھی۔ اگست کے اختتام تک یہ دونوں دھرنے علیحدہ علیحدہ رہے لیکن 30 اگست کو اکٹھے ہو گئے، علامہ طاہر القادری نے 70 روز کے بعد دھرنا ختم کر دیا،جب کہ عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کا دھرنا 126 دن تک جاری رہا۔ یہ دھرنا اس اعتبار سے تاریخی ہے کہ پاکستان میں اس سے پہلے کسی سیاسی جماعت نے اتنا طویل دھرنا نہیں دیا۔دھرنے کی قوت اور حاضری میں اونچ نیچ یقیناً آتی رہی لیکن 4 ماہ سے بھی زاید عرصے تک اسے برقرار رکھنا سیاسی تاریخ کا ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔