کراچی (اسٹاف رپورٹر)گوادر میں کارپوریٹ سوشل ریسپانسبلٹی کے تحت چائنا اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی (COPHC) اور دوسری چینی کمپنیوں کی جانب سے کیے گئے اقدامات قابل ستائش اور درست سمت کی جانب اہم قدم ہیں۔ تاہم ان منصوبوں کی طویل المدّت کامیابی اور انہیں فائدہ مند بنانے کے لیے مقامی کمیونیٹیز کے ساتھ موثر بات چیت اور مثبت وابستگی اہمیت کی حامل ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو مربوط اقتصادی و معاشی ترقی کی حکمت عملی کے لیے ایک میکینزم تیار کرنا چاہیے اورCPECکے حوالے سے گوادر کے مکینوں کی توقعات اور امنگوں کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے۔ان خیالات کا اظہار مقررین نے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز(آئی پی ایس)اسلام آباد اور یونیورسٹی آف گوادر کی جانب سے ’’گوادر میں CSRکے اقدامات (دی گیٹ وے ٹو سی پیک)‘‘کے عنوان سے منعقد ہونے والے سمینار میں کیا۔ تزویراتی اہمیت کے حامل پورٹ سٹی میں منعقد ہونے والی دوروزہ میڈیا کنونشن اور گول میز کانفرنس کے لیےCOPHC، گوادر پورٹ اتھارٹی(GPA) اور گوادر ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے تعاون کیا تھا۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین گودار پورٹ اتھارٹی (GPA) نصیر خان کاشانی نے CSRکے ذریعے مقامی باشندوں کو متحد کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’ہمیں انفرااسٹرکچر کی تعمیرمیں مقامی باشندوں کو ترجیح دینی چاہیے۔پینے کا پانی اور بجلی گوادر میں حکام کی پہلی ترجیح ہے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ12 لاکھ گیلن کا ڈی سیلینیشن پلانٹ 6 سے8 ماہ میں فعال ہو جائے گا اور اس سے مقامی باشندوں کو پینے کا پانی ملے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پاک چائنا ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ، جس کا حال ہی میں افتتاح کیا گیا ہے، مقامی نوجوانوں کو تین سال کی ٹریننگ دے گا جو چینی دوستوں کی جانب سے ایک بڑا سماجی تعاون ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ چینی حکام نے گوادر کے غریب ترین افراد کو بجلی کی فراہمی کے لیے تین ہزار سولر پینل بھی فراہم کیے ہیں۔ اس موقع پر کانفرنس کے کلیدی خطاب میں چیئرمین COPHC ڑانگ باؤ ڑانگ نے گوادر میں اپنے7 سالہ قیام کے دوران پیش آنے والے تجربات کے بارے میں بتایا۔ اْن کا کہنا تھا کہ ’’ہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ مقامی باشندوں کی توقعات کو پورا کرنے کے لیے گوادر مزید تیزی سے ترقی کرنے کا مستحق ہے۔