گڈ بائے شہباز شریف؟

720

صاحبو! عمران خان نے کمال کیا ہے۔ کس میں جرأت تھی اس سمت جانے کی، اس طرف اشارہ بھی کرنے کی جس کے بعد زمین کا رزق اور آسمان کی چھائوں حرام کردی جاتی تھی، جن کے صرف قصیدے لکھے جاسکتے تھے، جہاں وہ نزاکت احساس پائی جاتی تھی کہ ڈان لیکس بھی برداشت نہیں ہوتی تھی وہاں عمران خان روز ایک تازہ گالی، جانور، میر جعفر اور میر صادق کی مثالوں کے ساتھ ارسال کررہے ہیں لیکن سب گوارا، سب پزیرا کیونکہ عمران خان بول رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی وہ خصوصی شعبہ تھا محترمہ بے نظیرسے لے کر زرداری اور نواز شریف تک کسی کے لیے بھی اس کی AM اور PM، صبح شام پوچھنا اندوہناک ہوا کرتی تھی عمران خان نے اس کے پر خچے اڑاکررکھ دیے لیکن سب خاموش۔ بھارتی میجر گوریو آریا کی ایک ویڈیو بہت وائرل ہوئی ہے جس میں وہ کہہ رہے ہیں ’’ہم لوگ نہیں سوچ سکتے بنا گولی چلائے، بنا بھارت کی فنڈنگ کے، بھارت کا ایک پیسہ نہیں لگا لیکن پاکستانی عوام پاکستانی فوج کو پاکستان کے اندر گالی دے رہی ہے‘‘ ان جملوں سے ہمارا تو دم گھٹنے لگا لیکن دوسری طرف وہ شائستگی، وہ رواداری، وہ بردباری کہ غالب یاد آگئے۔ ہم سمجھتے تھے صرف غالب اور شاعرگالیاں کھا کر بھی بے مزہ نہیں ہوتے۔ عمران خان اپنی جان کے خطرے کا اندراج کرارہے ہیں، طریقہ واردات تک بیان کررہے ہیں کہ کچھ زہر ایسے ہوتے ہیں جن کے استعمال سے وجہ موت زہر کے بجائے دل کا دورہ دکھتی ہے۔ اب ظاہر ہے شہباز شریف، مولانا دامت برکاتہم اور زرداری صاحب میں تو اتنی جرأت نہیں ہوسکتی کہ عمران خان کو زہر دے سکیں۔ پھر عمران خان کو زہر کون دے سکتا ہے؟ جن کی طرف اشارہ ہے ان کی خوش اخلاقی عمران خان کو آداب کہنے سے فرصت پائے تو جواب ملے۔ ہمیں تو یقین نہیں، لوگ کہہ رہے ہیںکہ وہ عمران خان کے پریشر میں آگئے ہیں۔
منحرف اراکین کے خلاف عدالت عظمیٰ کا تین دو کی اکثریت سے فیصلہ آگیا۔ جن کی نظر میں نواز شریف کی اپنے بیٹے سے نہ لی جانے والی تنخواہ بھی تنخواہ شمار ہوتی ہے ان کے نزدیک پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کا ووٹ، ووٹ نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کی دس برس تک حکومت پورے گائوں کا فیصلہ تھی۔ عمران خان کی نا اہلی نے جب ملک میں ہاہاکار مچادی اور ملک کے غریب غربا غش غش کے ساتھ لانے والوں کے ساتھ گالم گلوچ کا معاملہ کرنے لگے تب طے پایا گیا کہ عمران خان کے ’’آئیز اینڈ ایئر‘‘ بلاک کردیے جائیں۔ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض کو پہلی ٹرین سے پشاور کے کورکمانڈر کے عہدے کی طرف روانہ کردیا جائے۔ عمران خان کی رکاوٹوں کی وجہ سے بمشکل آخری ٹرین پر جنرل صاحب کو چڑھایا جاسکا۔ جنرل صاحب کے کور کمانڈر بننے سے عمران مخالفین کے جھونپڑوں کی آگ ٹھنڈی ہونے کے بجائے اور بھڑک اٹھی کہ نومبر میں اگر عمران خان نے جنرل فیض کو آرمی چیف بنادیا تو آئندہ الیکشن میں پوری اپوزیشن جیل میں ہوگی اور عمران خان اگلے پانچ برس کے لیے مزید وزیراعظم ہائوس میں۔ اپوزیشن بھی الرٹ ہوگئی کہ اس سے پہلے کہ گھر پوری طرح جل جائے اور وہ جان بھی نہ بچاسکیں، تحریک عدم اعتماد پیش کردی جائے۔ نواز شریف کہ لمبی ریس کا گھوڑا ہیں وہ عمران خان کی مدت اقتدار کی تکمیل چاہتے تھے، انہوں نے بھی حکومت گرانے کی اجازت دے دی۔ فوجی قیادت جسے جنرل فیض کی پشاور پوسٹنگ کے معاملے میں عمران خان نے بہت تنگ کیا تھا انہوں نے بھی زرداری صاحب کو تحریک عدم اعتماد کی صورت میں نیوٹرل رہنے کا اشارہ کردیا۔ اشارہ ملتے ہی زرداری صاحب بلاول کو لے کر پھر شہباز شریف کے گھر جا پہنچے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی خالصتاً اپوزیشن کی کوششوں کا نتیجہ تھی۔ اسی لیے عمران خان کے اتحادیوں کو اپنے ساتھ ملانے میں اسے تین ماہ لگ گئے۔ اسٹیبلشمنٹ کی مدد کی صورت میں اتحادی ایک فون کال کی مار تھے۔
تحریک عدم اعتماد کے دوران خیال یہ تھا کہ عمران حکومت کے خاتمے کے بعد جلدازجلد اگلے الیکشن کی طرف جایا جائے گا لیکن جس قانونی اور آئینی طریقے سے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور اسٹیبلشمنٹ سے لے کر عدلیہ تک سب اپنے آئینی کردار تک محدود رہے اس نے نئی حکومت کو یہ حوصلہ دیا کہ کیوں نہ اگلے ڈیڑھ سال تک حکومت کی آئینی مدت پوری کی جائے۔ شہباز شریف نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالتے ہی جس طرح اپنی انتظامی پھرتیاں دکھائیں اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو بھی کوئی اعتراض نہ رہا۔ لیکن اس خیال آفرینی میں عمران خان کی مجروح انا کو فراموش کردیا گیا جس نے منہ کے قطر سے بڑی وہ وہ گالیاں اسٹیبلشمنٹ کو دیں، وہ پروپیگنڈا کیا، وہ فرضی بیانیے تشکیل دیے کہ سب چکرا کر رہ گئے۔ اس میں شک نہیں کہ نواز شریف، مریم نوازاور مولانا نے بھی جنرلوں کا نام لے لے کر گولہ
باری کی تھی لیکن عمران خان نے ایک کام وہ کیا جو آج تک بھارت اور امریکا نہ کرسکا۔ چونکہ اس بات کا اب ہر طرف چرچا ہے لہٰذا ہم بھی کہہ دیتے ہیں کہ عمران خان وہ پہلے شخص ہیں جو فوج کے اتحاد میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہوسکے۔ حاضر اور ریٹائرڈ فوجی افسران اور ان کے خاندانوں کی ایک بڑی اکثریت جن کے سامنے تواتر سے یہ گردان کی جاتی تھی کہ سیاست دان چور اور کرپٹ ہیں وہ نواز شریف، زرداری اور دیگر پرانے سیاست دانوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں جب کہ عمران خان ان کے نزدیک سیاست دان نہیں ایک اوتار ہیں۔ وہ عمران خان اور ان کے ساتھیوںکے خلاف کوئی جوابی کاروائی یا انہیں جیل میں دیکھنے کے لیے تیار نہیں۔ اس آشیرباد کی وجہ سے عمران خان ہر روز شیر ہوتے چلے گئے اور وہ اسٹیبلشمنٹ کو پریشر میں لانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے فوری الیکشن کے مطالبے کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں۔
ن لیگ کی اتحادی حکومت جو بڑی تندہی سے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات اور دیگر اقدامات کی طرف جارہی تھی۔ ہوائوں کا بدلتا رخ ان کے لیے پیغام تھا کہ ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط مان کر سخت معاشی فیصلے کرکے، پٹرول اور بجلی کی قیمتیں بے تحاشا بڑھا کر جب چاروں طرف سے وہ عوام کی گالیوں کی زد میں ہوں گے ایسے میں اگر ان کے نیچے سے زمین کھینچ لی گئی تو وہ عوام کے پاس کیا منہ لے کر جائیں گے اور الیکشن میںعوام سے سوائے گالیوں کے انہیں کیا ملے گا۔ یہی وجہ تھی کہ نواز شریف نے لندن میں پوری کابینہ کو طلب کرلیا۔ جس میں فیصلہ کیا گیا کہ اگر ڈیڑھ سال تک آئینی مدت پوری کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا تو پھر ہم عوام پر بوجھ نہیں ڈالیں گے ہم حکومت سے باہر آجائیں گے۔ عوام پر بوجھ ڈالنے کے حوالے سے ایک موقف یہ سامنے آیا کہ اگر بڑی بڑی گاڑیوں، موبائل فونز اور کچھ دیگر لگژری اشیاء کی امپورٹ پر مکمل پابندی عائد کردی جائے تو پانچ چھے ارب ڈالر بچا کر پٹرول کی قیمتیں بڑھنے سے روکی جاسکتی ہیں جیسا کہ کل حکومت نے اعلان کیا۔ اس بات کو ماننے کا انحصار امریکا اور آئی ایم ایف پر ہے۔ اگر اس کے باوجود بھی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے دبائو میں رہتی ہے تو پھر ستمبر 2022 تک الیکشن یقینی ہیں۔ آئندہ تین چار دن یا ایک ہفتے میں فیصلہ ہوجائے گا۔ جس کے بعد عبوری سیٹ اپ حکومت سنبھالنے کے لیے تیار کردیا گیا ہے۔ نام بھی گردش میں ہیں۔ ہوائوں کا بدلتا رخ دیکھ کر عدالت عظمیٰ سے بھی چار ہفتوں کی حکومت کے خلاف سوموٹو فیصلے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس سارے معاملے کا اسٹیبلشمنٹ سے لے کر شہباز حکومت تک مثبت پہلو یہ ہے کہ اب اگلے الیکشن میں عمران خان کے دوبارہ وزیراعظم بننے کے امکانات ختم ہوگئے ہیں جس کی بے پناہ حرص کے تحت وہ جنگل میں آگ لگانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اگلے الیکشن کے جو بھی نتائج ہوں گے وہ عمران خان تسلیم نہیں کریں گے۔ وہ اسی طرح شور مچاتے رہیں گے۔ ملک اسی طرح بحرانوں کی زد میں رہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سرمایہ دارانہ جمہوری نظام ملک میں اچھی حکومتیں دینے میں ناکام ہوگیا ہے۔ قارئین کرام آپ کے لیے پیغام یہی ہے کہ حکومت کسی کی بھی آئے یا جائے اس جمہوریت میں آپ کی خیر نہیں۔ مہنگائی کی ایک تباہ کن لہر کے لیے تیار رہیے۔