حکومت، بادشاہت ہو یا سرداری کا نشہ کسی ایک نسل میں گھر کر جائے تو وہ آنے والی نسلوں تک چلتا ہے۔ اس طرح جو بھی حکمران دنیا کے کسی حصہ پر قابض ہوا، اس نے اس حکمرانی کو اپنے خاندان کی میراث سمجھا، فرعون، نمرود، شداد کے قصے تو مشہور ہیں۔ طاقت کے حصول کی فکر انسانی سرشت میں ازل سے شامل ہے۔ کہتے ہیں کہ بڑوں کی موت بعض اوقات چھوٹوں کو بہت بڑا بنا دیتی ہے۔ پاکستان میں بھی کئی سیاسی خاندانوں کی حکمرانی ہے، کچھ خاندان سیاسی منظر سے غائب ہوگئے اور کچھ نئے خاندان سیاست میں داخل ہوگئے، چنگیز خان نے 1227 میں مرنے سے پہلے اوغدائی خان کو اپنا جانشیں مقرر کیا۔ ساتھ ہی اس نے اپنی سلطنت کو اپنے بیٹوں اور پوتوں میں تقسیم کردیا۔ چنگیز خان کو منگولیا کے کسی نامعلوم مقام پر دفنایا گیا۔ اس کے بعد اس کی اولادوں نے سلطنت کو وسعت دینے کا سلسلہ جاری رکھا اور موجودہ دور کا چین، کوریا، قفقاز، وسطی ایشیائی ممالک سمیت مشرق وسطیٰ اور مشرقی یورپ کے خطے بھی خان سلطنت کے زیرنگیں رہ چکے ہیں۔
جس طرح دنیا کے مختلف خطوں میں خاندانوں نے حکومت کی اسی طرح پاکستان میں سیاست ہمیشہ سے موروثیت کا شکار رہی ہے۔ باپ کے بعد بیٹا، بھائی، بہن، چچا، بھتیجا ہی خاندانی سیاست کو لے کر آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ زیادہ تر خاندانی سیاست میں بیٹوں کا سب سے زیادہ حصہ ہے۔ اس کے بعد قریبی رشتہ داروں کا نمبر آتا ہے، پھر بھتیجوں کا نمبر ہے اور سب سے کم دامادوں کا حصہ ہے۔ بیٹیوں کا حصہ شاذ و نادر نظر آتا ہے۔ ورکرز اور پارٹی رکن قومی اور صوبائی اسمبلی کو صرف پارٹی قائدین کی اندھی تقلید کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی صرف ایک ہی خاندانوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ مسلم لیگ نواز شریف خاندان، پیپلز پارٹی بھٹو خاندان، عوامی نیشنل پارٹی ولی باغ، مسلم لیگ ق کی سربراہی چودھری برادران سے کسی دوسرے کو منتقل نہیں ہورہی اور جے یو آئی کی سربراہی مولانا فضل الرحمن چھوڑنے کو تیار نہیں۔ مجموعی طور پر یہ موروثی یا خاندانی سیاست دان 2018 کے انتخابات تک قومی اسمبلی کا پچاس فی صد رہے ہیں۔ چودھری نثار علی خان نے اس لیے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ سیاست ختم کر دی کیونکہ اگر نواز شریف کی بیٹی مریم اور شہباز شریف کے بیٹے حمزہ ہی کو اگر قیادت کرنی ہے تو ہمارا یہاں کیا کام۔
افسوس کہ کچھ اس کے سوا ہم نہیں سمجھے
دیکھے ہیں علاقے کی سیاست کے جو تیور
جمہوریت اک طرز حکومت ہے جس میں
والد کی جگہ لینے کو آجاتی ہے دختر
انور مسعود
پاکستان کا رقبہ کے حساب سے بڑا صوبہ بلوچستان جس میں سیاست کا محور قبائلی یا خاندانی وفاداریاں ہیں، سیاسی جماعتیں نام کی حد تک وجود رکھتی ہیں۔ اچکزئی، بزنجو، رئیسانی، مری، مینگل، بگٹی، زہری، غرض کسی کا نام بھی لیں تو ان سارے خاندانوں کی سیاسی نظام پر اجارہ داری اپنے اپنے قبائلی یا نسلی خطوں میں برقرار ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت جو کسی زمانے میں موروثی سیاست سے نکل رہی تھی لیکن اے این پی کی قیادت بھی ولی باغ تک محدود ہوگئی ہے۔ اسفند یار ولی خان کے بیٹے ایمل ولی صوبائی قیادت سنبھالے ہوئے ہیں۔ پنجاب کے بڑے سیاسی خاندان بشمول نواز شریف، چودھری نذیر آف گجرات، ٹوانے، قریشی، گیلانی، جنوبی پنجاب کے مخدوم اور اقتدار میں رہنے والے جرنیلوں کے بچے، نہ صرف قومی اسمبلی میں اپنی اجارہ داری برقرار رکھتے ہیں بلکہ صوبائی اسمبلیاں بھی براہ راست ان ہی کے خاندان کے افراد یا ان سے وابستہ لوگوں کے حصے میں آتی ہیں۔
ایک تحقیق کے مطابق خاندانی سیاست جاگیرداروں کے طبقے تک محدود نہیں ہے، بلکہ سیاست میں آنے والے صنعت کاروں اور کاروباری طبقے بھی اپنے اپنے وارث سیاست میں لیکر آئے اور اس طرح انہوں نے موروثی سیاست کی روایت کو جلا بخشی۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں امیدواروں کے لیے گریجویٹ ہونے کی شرط تو رکھی تھی مگر جب انہوں نے جوڑ توڑ کی سیاست کی تو سیاسی خاندانوں کے گریجویٹ چشم و چراغ پھر سے اسمبلیوں میں پہنچ گئے۔
اسی وجہ سے ہر سیاسی جماعت کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ’’الیکٹ ایبلز‘‘ امیدوار ڈھونڈے اور اس طرح نئی جماعت بھی موروثی سیاست سے بچ نہیں پاتی ہے۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ جنرل ضیاء کے غیر جماعتی انتخابات میں نئے امیدوار انتخابات میں آئے مگر ان ہی میں سے نئے آنے والوں میں سے چند ایک نے اپنی نئی خاندانی سیاسی اجارہ داریاں قائم کرلیں۔ جرنیلوں کے بچوں نے انتخابات لڑ کر اپنی اجارہ داریاں بنانے کی کوششیں کی ہیں۔ یعنی فوجی حکمرانوں نے موروثی قیادت کو کمزور نہیں کیا بلکہ اس کا حصہ بنی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قوانین اور پولیٹیکل ایکٹ کے تحت ہر سیاسی جماعت انٹرا پارٹی انتخابات کی پابند ہے لیکن خانہ پْری کے لیے انتخابات کا ڈھونگ رچا کر پارٹی قیادت خاندان سے باہر نہیں نکلتی۔ ایک جانب پارٹی کی قیادت چند مخصوص خاندانوں کے گرد گھومتی رہی تو انتخابات میں ٹکٹ بھی خان، وڈیروں اور نوابوں میں تقسیم کردیے جاتے ہیں۔ سینیٹ میں ٹکٹ لینا اب کروڑ پتی سے ارب پتی تک بات پہنچ گئی ہے۔ زیادہ قیمت ادا کرنے والا ہی سینیٹ کا ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ جب تک تحریک انصاف اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچی تھی تحریک انصاف بھی موروثی سیاست سے پاک تھی۔ لیکن اقتدار میں آنے کے بعد تحریک انصاف میں بھی ان لوگوں کو غلبہ رہا، جو ہر دور میں فٹ ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کے ساتھ زندہ باد، مردہ باد کا نعرہ لگانے والے ورکرز پیچھے رہ گئے اور وہی روایتی سیاستدان ایوانوں میں پہنچ گئے۔ جس کا نتیجہ نکمے سیاستدانوں سے یہ نکلا ملک معاشی تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا، اس لیے ایسے میر کارواں کو بدل دینا ہی بہتر ہے۔
حکومت چل نہیں سکتی نکمے حکمرانوں سے
چلے وہ پوت کیا جس کا پھٹا ہو بادباں یارو
جسے پکڑا جوانوں نے بڑی قربانیاں دے کے
رہا ان کو لگے کرنے وطن کے حکمراں یارو
اندھیرے راستوں پر قافلہ جانے لگے جس دم
بدل ڈالو اسی لمحے امیر کارواں یارو
دیپ بلاسپوری
موروثی سیاست کو اوپر لاہور کے انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اینڈ اکنامک آلٹرنیٹوز کے ریسرچرز کے مطابق پاکستان کی موروثی سیاست کا موازنہ چند دوسرے ممالک سے کیا تھا۔ ان کے مطابق، امریکی کانگریس میں 1996 میں موروثی سیاست کا حصہ تقریباً 6 فی صد تھا، بھارت کی لوک سبھا میں 2010 تک 28 فی صد، جبکہ پاکستان کی قومی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں موروثی سیاست دانوں کا حصہ 53 فی صد تھا۔ کسی بھی جمہوری معاشرے کے لیے موروثی سیاست کی یہ شرح ناقابل قبول ہے۔ موروثی یا خاندانی سیاست کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ پچھلی تین دہائیوں سے پنجاب کے تقریباً 4سو خاندان ہیں جو مسلسل ایسی پالیسیاں بناتے اور قانون سازیاں کرتے چلے آرہے ہیں جن کی وجہ سے قومی وسائل اور نجی شعبوں میں ان کی طاقت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ اْن کے مطابق 1985 کے انتخابات سے 2018 کے انتخابات تک ہر انتخابی حلقے میں پہلے تین امیدواروں کی مجموعی دو تہائی تعداد موروثی یا خاندانی سیاست سے تعلق رکھتی ہے۔ اور تاحال یہ حالات بدلے نہیں ہیں۔ نئی نسل آگئی ہے لیکن کرپشن آباؤ اجداد کی طرح جاری ہے۔
نئے کردار آتے جا رہے ہیں
مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے
صرف واحد جماعت اسلامی ہی ہے جو اپنے پارٹی منشور کے تحت انٹرا پارٹی انتخاب کراتی ہے اور ایک طویل مرحلے کے بعد جماعت کے ذمے داران اپنی قیادت کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سید ابو الاعلیٰ مودودی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور سراج الحق جیسے عام شہری کو بھی جماعت اسلامی کی قیادت سنبھالنے کا موقع ملا۔ جماعت اسلامی کا شمار ملک کی ان سیاسی جماعتوں میں ہوتا ہے جس میں موروثی سیاست کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ 26 اگست 1941 کو لاہور کے اسلامیہ پارک سے 75 افراد کے اجلاس کے بعد وجود میں آنے والی جماعت اسلامی آج بھی مولانا سید ابو اعلیٰ مودودی کے افکار کے مطابق اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے جدو جہد کر رہی ہے۔ پلڈاٹ کے مطابق جماعت اسلامی پاکستان کی سب سے زیادہ جمہوری پارٹی ہے۔