از خود نوٹس… عدالت عظمیٰ کا بروقت اقدام

348

عدالت عظمیٰ نے اہم نوعیت کے حامل یعنی ہائی پروفائل کیسز میں حکومتی ذمہ داران کی مداخلت کے خلاف از خود نوٹس لیتے ہوئے ان مقدمات میں خصوصی عدالتوں اور نیب میں تقرر و تبادلوں پر تاحکم ثانی پابندی لگا دی ہے اور استفسار کیا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے فرزند وزیر اعلیٰ پنجاب کے مقدمات میں تفتیشی افسروں کو کس بنیاد پر ہٹایا گیا۔ عدالت عظمیٰ نے گزشتہ چھ ہفتوں کے دوران پراسیکیوشن اور تفتیش کے محکموں میں ہونے والے تقرر تبادلوں کی تفصیلات بھی وفاقی حکومت سے طلب کر لی ہیں اور یہ وضاحت بھی مانگی ہے کہ بتایا جائے کہ کن کن لوگوں کے کن وجوہ پر تبادلے کئے گئے ہیں۔ مزید برآں عدالت نے پچھلے چھ ہفتے کے عرصہ میں ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالے جانے والے ناموں کی فہرست بھی پیش کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے منصف اعلیٰ عمر عطا بندیال نے یہ از خود نوٹس اپنے ایک ساتھی جج مظاہر علی نقوی کے نوٹ پر لیا تھا جس میں توجہ دلائی گئی تھی کہ افسروں کے تبادلوں اور تحقیقات میں مداخلت سے نظام انصاف میں خلل پڑ سکتا ہے حکومتی مداخلت سے اہم مقدمات میں شواہد ضائع ہونے اور پراسیکیوشن پر اثر انداز ہونے کا خدشہ ہے، اسی طرح احتساب قوانین میں تبدیلی نظام انصاف کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے۔ عدالت عظمیٰ کے منصف اعلیٰ نے ساتھی جج کے نوٹ پر بروقت اقدام کرتے ہوئے از خود نوٹس کے تحت کارروائی کا آغاز کر دیا اور اپنی سربراہی میں ایک پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا جس میں جسٹس اعجاز الحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر شامل تھے۔اس لارجر بنچ نے جمعرات کے روز اس از خود نوٹس کی باقاعدہ سماعت کا آغاز کیا اور ابتدائی حکم کے بعد مزید سماعت ستائیس مئی تک ملتوی کر دی عدالت عظمیٰ کی جانب سے اس معاملہ میں یہ از خود کارروائی اس لیے نہایت ضروری ہو گئی تھی کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد وجود میں آنے والی نئی حکومت کے وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کے فرزند وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے خلاف تحقیقات کرنے والے افسر کا تبادلہ کر دیا گیا تھا اور مبینہ طور پر اس افسر پر اس قدر دبائو ڈالا گیا کہ وہ اس دبائو کو برداشت نہ کر سکنے کے سبب دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہو گیا جب کہ اس افسر کے بعد ذمہ دار افسر بھی دل کے دورے ہی کا شکار ہو کر ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ بات یہاں بھی ختم نہیں ہوئی بلکہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے عدالت میں یہ تک کہہ دیا گیا کہ وہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے اس کیس کی پیروی نہیں کرنا چاہتا۔ اہم قومی مناصب پر براجمان حکومتی عہدیداروں کی جانب سے عدالتی عمل پر اثر انداز ہونے اور اپنی ذات کی خاطر انصاف کا خون کرنے کی اس سے بدتر مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب ذرائع ابلاغ سے یہ اعلانات بھی سامنے آئیں کہ حکومت نے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کو بھی ان کے منصب سے سبکدوش کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ان حالات میں ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا معاملے کا از خود نوٹس لینا نہایت صائب فیصلہ تھا جس کے نتیجے میں روشنی کی یہ کرن دکھائی دی ہے کہ اپنے اور اپنی کابینہ کے اکثر ارکان کے خلاف بدعنوانی اور لاقانونیت کے مقدمات ختم کرنے کی کوششیں شاید کامیاب نہ ہو سکیں اور قوم با اثر اور برسر اقتدار لوگوں کے خلاف بھی قانون کو حرکت میں آتے دیکھ سکے۔ یہ مقام اطمینان ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے، چیئرمین نیب، سیکرٹری داخلہ کو نوٹس جاری کرتے ہوئے تحریری جوابات طلب کر لیے ہیں۔ عدالت نے نیب اور ایف آئی اے کے پراسیکیوٹرز سمیت تمام متعلقہ افسران سے بھی تحریری جواب طلب کر لیا ہے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ گزشتہ 6 ہفتوں کے دوران جن افراد کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے ہیں ان کی فہرست پیش کریں اور بتایا جائے کہ حکومت نے اگر ای سی ایل پر نام ڈالنے اور نکالنے کا طریقہ کار بدلا ہے تو عدالت کے سامنے رکھیں، عدالت نے مقدمات کی نا مکمل دستاویزات کا ریکارڈ محفوظ بنانے کے لیے اقدامات سے آگاہ کرنے کا حکم دیا اور کہا کہ ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ ایف آئی اے اور نیب میں چیک کیا جائے اور ریکارڈ کو چیک کرنے کے بعد سیل کیا جائے اور ہائی پروفائل مقدمات کا ریکارڈ چیک کر کے مجاز اتھارٹی کو رپورٹ پیش کریں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ریکارڈ سیل کرنے سے ٹرائل رک جائے گا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ زیر التوا مقدمات کا ریکارڈ سیل نہیں کر رہے بلکہ پراسیکیوشن کے ریکارڈ کو سیل کر رہے ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہم یہاں پوائنٹ اسکور کرنے کے لیے اکٹھے نہیں ہوئے، از خود نوٹس لینے کا ہمارا مقصد کریمنل جسٹس سسٹم کی مضبوطی ہے، اس سماعت کا مقصد کسی کو خفا کرنا نہیں، یہ کارروائی کسی کو ملزم ٹھہرانے یا شرمندہ کرنے کے لیے نہیں ہے یہ کارروائی فوج داری نظام اور قانون کی حکمرانی کو بچانے کے لیے ہے، اس وقت ہم کوئی رائے نہیں دے رہے، ہم نے لوگوں سے قانون کی حکمرانی کا وعدہ کیا ہے، امید کرتا ہوں کہ وفاقی حکومت پولیس کے ساتھ تعاون کرے گی، ہم آئین اور اللہ کو جوابدہ ہیں، ہمیں تعریف کی ضرورت نہیں، تنقید کا بھی کوئی خوف نہیں، صرف انصاف کی فراہمی چاہتے ہیں،ایف آئی اے لاہور کی عدالت میں پراسیکیوٹر کو تبدیل کر دیا گیا، ڈی جی ایف آئی اے ثناء اللہ عباسی اور ڈائریکٹر رضوان کو بھی تبدیل کر دیا گیا، ڈاکٹر رضوان ایک قابل افسر تھا اس کو کیوں ہٹایا گیا، انہیں بعد میں ہارٹ اٹیک ہوا، ان معاملات پر تشویش ہے اور ان معاملات میں قانون کی حکمرانی پر اثر پڑ رہا ہے، امن اور اعتماد معاشرے میں برقرار رکھنا آئین کے تحت سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے، ڈی جی ایف آئی اے نے تفتیشی افسر کو کہا کہ نئے بننے والے وزیر اعلیٰ کے کیس میں پیش نہیں ہونا، پراسیکیوشن برانچ اور تفتیش کے عمل میں مداخلت نہیں ہونی چاہئے، پراسیکیوشن افسروں کو ہٹانے کی وجوہات جاننا چاہتے ہیں، آج کئی سیاسی پارٹیوں کے مضبوط سوشل میڈیا سیکشنز ہیں، تمام چیزوں کو نوٹ کرتے ہیں اور آپس میں بات کرتے ہیں، عدالت فیصلہ کرتے ہوئے کبھی نہیں گھبراتی، ہم خاموش تماشائی بن کر یہ چیزیں نوٹ کرتے رہے، مئی سے یہ اقدامات ہونا شروع ہوئے، ہم ان اقدامات کو دیکھتے رہے، مقدمات کے ملزم کو ابھی مجرم قرار نہیں دیا گیا، مقدمات کے ملزموں کو عدالت نے سزائیں نہیں سنائیں، انصاف کے نظام سے کوئی بھی کھلواڑ نہ کرے۔ عدالت عظمیٰ نے اپنی جانب سے انصاف کو یقینی بنانے، اہمیت کے حامل ان مقدمات کے ریکارڈ کو محفوظ بنانے اور حقائق پر مبنی تحقیق و تفتیش میں مداخلت کے امکانات کو کم سے کم کرنے کے لیے نہایت موثر اور ٹھوس اقدامات کئے ہیں۔ توقع کی جانا چاہئے کہ ان اقدامات کے موثر نتائج بھی سامنے آئیں گے اور قوم وطن عزیز میں عدل و انصاف کا بول بالا ہوتے دیکھے گی…!!!