سورہ انفال میں اہل ایمان کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ ان کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔ ( آیت 2) سورہ زمر میںہے کہ قرآن سن کر ان لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں، جو اپنے رب سے ڈرنے والے ہیں اور پھر ان کے جسم اور ان کے دل نرم ہو کر اللہ کے ذکر کی طرف راغب ہو جاتے ہیں۔ (آیت 23) سورہ بنی اسرائیل میں ہے: اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے۔ (آیت: 17) سورہ مریم میں ہے: ان کا حال یہ تھا کہ جب رحمان کی آیات ان کو سنائی جاتیں تو روتے ہوئے سجدے میں گر جاتے تھے۔ (آیت 58)
جب ایک شخص نے دور جاہلیت میں اپنی بیٹی کو کنویں میں دھکا دینے کا واقعہ بیان کیا تو آپؐ رو دیے اور آپؐ کے آنسو بہنے لگے۔ آپؐ نے اس سے فرمایا کہ اپنا قصہ پھر بیان کرو۔ اس نے دوبارہ بیان کیا اور آپؐ اسے سن کر اس قدر روئے کہ آپؐ کی داڑھی آنسوئوں سے تر ہوگئی۔
نبیؐ نماز میں بھی روتے تھے۔ سیدنا عبداللہؓ بن شخیر سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کو دیکھا کہ آپؐ کے سینے سے رونے کی آواز اس طرح سے آتی تھی جیسے کہ ہنڈیا کے جوش مارنے کے وقت کی آواز ہوتی ہے۔ (مسند احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی)
سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے مرض الوفات میںفرمایا: ابوبکرؓ سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: یارسول اللہؐ! ابوبکر رقیق القلب ہیں۔ اپنے آنسو نہیں روک سکتے۔ وہ جب قرآن پاک پڑھتے ہیں تو روتے ہیں۔ لیکن نبیؐ نے فرمایا: ابوبکر کو کہو کہ نماز پڑھائیں۔ چنانچہ آپؐ کی بیماری کے دوران میں ابوبکر صدیقؓ ہی نے امامت کرائی۔ اسی طرح عمرؓ کے واقعات میں آتا ہے کہ وہ صبح کی نماز میں سورہ یوسف پڑھ رہے تھے۔ جب اس آیت پر پہنچے: ’’میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا‘‘۔ (آیت: 56) تو ان کے رونے کی آواز سنی گئی۔ (بخاری)
اسی بنا پر فقہا کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر ایک شخص نماز کے دوران اللہ کے جلال، قرآن پاک کی آیات یا دوزخ کے تصور سے آواز سے رو پڑے تو اس کی نماز نہیں ٹوٹے گی۔ لیکن یہ اس وقت ہے جب بے اختیار آواز نکل آئے اور تلاوت قرآن پاک سننا اور سنانا متاثر نہ ہو۔ جب ایک آدمی امام کے پیچھے کھڑا ہوتا ہے تو اسے دوسروں کے خشوع و خضوع اور نماز اور امام کی قرأت کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ تمام احتیاطی تدابیرکے باوجود رقت کا اس قدر غلبہ ہو جائے کہ آواز سے رونا شروع کردے تو اس سے نماز میں فرق نہیں پڑے گا۔
اس لیے نماز باجماعت میں کوشش یہی کرنی چاہیے کہ بلند آواز سے نہ روئے تاکہ دوسروں کی نماز خراب نہ ہو اور وہ رونے والے کی طرف متوجہ ہوکر اپنی نماز کی طرف توجہ نہ چھوڑ دیں، نیزاس کے نتیجے میں اس بات کا بھی خطرہ ہے کہ ریاکاری کا مرض پیدا ہو جائے۔ اس لیے بھی احتیاط کرنا چاہیے۔
ریاکاری کے حوالے سے تو انسان خود ہی اپنے بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے۔ ریاکاری کے اندیشے سے نیک کام چھوڑتے چلے جانا، شیطان کی تدبیر بھی ہو سکتی ہے۔ انفاق کے بارے میں بھی حکم ہے کہ خفیہ کرو اور اعلانیہ بھی کرو۔ نیک اعمال کے مشاہدے سے نیک اعمال کی ترغیب ہوتی ہے۔ اس کی اپنی اہمیت ہے لیکن جو شخص اپنے دل کا مرض محسوس کرے، اسے احتیاط کرنا چاہیے۔
ریاکاری کا تعلق دل سے ہے، اپنے دل پر نظر رکھنا چاہیے۔ ریاکار وہ ہوتا ہے جو لوگوں کے سامنے ایک کام کو کرے لیکن جب لوگ دیکھ نہ رہے ہوں تو اسے نہ کرے۔ لوگوں کی موجودگی میں خشوع و خضوع کرے، عمدہ اور اعلیٰ کھانوں کو ہاتھ نہ لگائے، لیکن گھر میں سب کچھ کرے۔ لوگوں کے سامنے روزے دار، نمازی، تہجدگزار کی شکل میں پیش ہو لیکن فی الحقیقت روزہ، نماز اور تہجد سے اسے کوئی شغف نہ ہو، جیسے کہ مدینہ کے منافقین کا طرزعمل تھا۔ ریاکار بھی دراصل منافق ہوتا ہے۔ حقیقی کیفیات اور ظاہر و باطن میں ہم آہنگی ہو تو پھر ریاکاری نہیں ہوتی۔
رہی یہ بات کہ لوگوں کے سامنے کیا کام کرنا ہے اور تنہائی میں کیا کام، تو اس کا ضابطہ یہ ہے کہ ہر جائز کام اور ہر عبادت لوگوں کے سامنے کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح جو کیفیت جائز اور مستحسن ہے اسے لوگوں کے سامنے لایا جا سکتا ہے۔ رونا بھی اسی قسم کی کیفیات میں سے ایک کیفیت ہے۔ نبیؐ، صحابہ کرامؓ اور سلف صالحینؒ نے کھلے عام بھی اس سے پرہیز نہیں کیا۔ نماز میں ایسی کیفیت طاری ہو اور نماز میں آنسو بہنے لگیں تو انھیں روکنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ریاکاری نہیں ہے۔ آدمی مغلوب ہو جائے اور رونے کی آواز نکل آئے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ریاکاری یہ ہے کہ رونا نہ آتا ہو لیکن لوگوں کے سامنے بزرگی، تقویٰ اور ولایت ظاہر کرنے کے لیے روئے، اور گھر میں جب کوئی نہ دیکھ رہا ہو تو اس وقت نماز میں خشوع وخضوع بھی نہ ہو، آنسو بھی نہ آئیں اور بے اختیار آواز بھی نہ نکلے۔ (مولانا عبدالمالک)