تلاوت قرآن کے باطنی آداب

6839

ہماری شخصیت کے دو حصے ہیں۔ ایک ظاہری ہے اور دوسرا باطنی۔ ایک جسم اور ہاتھ پائوں ہیں، اور دوسری اندرونی شخصیت ہے۔ یہ ہمارا دل اور قلب ہے۔ اس کو قرآن مجید نے قلب سے تعبیر کیا ہے۔ اس قلب کو تلاوت کے عمل میں شریک کیا جائے۔ یہ نہیں کہ آدمی زبان سے پڑھتا جائے اور دل کہیں اور گھوم رہا ہو۔ وہ کیا چیزیں ہیں جن سے دل بھی اس تلاوت کے عمل میں شریک ہو سکتا ہے؟ اب میں ان کا تذکرہ کروں گا۔
1۔خود اللہ تعالیٰ نے کلام پاک میں ذکر فرمایا ہے کہ اس کتاب کے پڑھنے والوں پر اس کے اثرات اور تجلیات مرتب ہوتی ہیں۔ اْن کو آپ ایک لحظے اور ایک لمحے کے لیے تازہ کر لیں۔ یہ تلاش کرنا آپ کے لیے مشکل نہیں ہے۔ اس حوالے سے قرآن کی بہت سی آیات ہیں۔
سورہ الانفال میں ہے کہ جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو دل کانپ اٹھتے ہیں، اور جب کلام پڑھا جاتا ہے تو ایمان بڑھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سورہ المائدہ میں ہے کہ جب وہ کلام سنتے ہیں تو اْن کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ سورہ الزمر میں ہے کہ جب کتاب پڑھی جاتی ہے تو جسم کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، کھالیں نرم پڑ جاتی ہیں۔ سورہ بنی اسرائیل میں ہے کہ لوگ جب اس کو پڑھتے ہیں تو روتے ہوئے سجدوں میں گر جاتے ہیں، اور اْن کے خشوع میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ سورہ مریم میں بھی اس طرح کی آیات ہیں۔ جگہ جگہ اس طرح کے موضوعات ہیں۔ اگر تلاوت سے پہلے ان کو سامنے رکھا جائے اور ایک لمحے کے لیے آدمی یہ ذہن میں تازہ کر لے کہ قرآن کو پڑھنے والے ایسے تھے اور ان کی یہ کیفیت ہوتی تھی تو بہت مفید ہے۔ اگر ایسا نہ ہو سکے پھر بھی ان کیفیات کو اپنے اْوپر طاری کرنے کی کچھ کوشش کرنی چاہیے۔ یہ سوچنا چاہیے کہ اگر میں اس راستے پر آگے بڑھوں تو مجھے بھی ایسا کرنا چاہیے۔
2۔یہ سوچا جائے کہ اللہ میرے سامنے ہے، اْس کے سامنے بیٹھ کر میں قرآن پڑھ رہا ہوں اور یہ اْس کی کتاب ہے۔ قرآن مجید میں بار بار یہ حکم بھی آیا ہے کہ اْس کے سامنے کھڑے ہو کر بار بار تلاوت کرو۔ جس طرح بچہ اْستاد کے سامنے جو نگرانی کر رہا ہو، کھڑے ہو کر پڑھتا ہے تو اور ہی کیفیت ہوتی ہے، اور تنہائی میں پڑھتا ہے تو اور کیفیت ہوتی ہے۔ عبادت میں احسان کی منزل بھی یوں ہی حاصل ہوتی ہے کہ آدمی اس طرح بندگی کرے کہ گویا اللہ اس کے سامنے ہے اور وہ اسے دیکھ رہا ہے۔ لیکن یہ تو اللہ کی کتاب کا معاملہ ہے۔ یہ سب سے بڑی عبادت ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت نماز میں کی جائے۔ اس طرح کے بے شمار احکام قرآن میں دیے گئے ہیں، اور اللہ کا ذکر تو قرآن میں سب سے بڑھ کر ہے۔
یہ احساس کہ میں اللہ کے سامنے ہوں، مستحضر ہونا چاہیے۔ قرآن کی آیات گواہ ہیں کہ تم کہیں بھی ہو ہم تمھارے ساتھ ہیں۔ ’’تم ہماری نگاہ میں ہو‘‘۔ (الطور: 48) میں ہر بات سن رہا ہوں۔ ’’ہم اس کی رگ گردن سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں‘‘۔ (ق: 16) اگر دو ہوتے ہیں تو میں تیسرا ہوتا ہوں۔ تین ہوتے ہیں تو میں چوتھا ہوتا ہوں، کم ہوں یا زیادہ میں ساتھ ہوتا ہوں۔ تنہائی میں بیٹھے ہوں یا مجلس میں، یا درس ہو رہا ہو، میں موجود ہوتا ہوں۔ یہاں تک کہ کوئی بھی کام کرتے ہو، قرآن پڑھتے ہو، ہم وہاں موجود ہوتے ہیں۔ یہ چیز ذہن میں اسی طرح تازہ رہنی چاہیے۔
3۔ہم یہ سوچیں کہ ہم اس کلام کو اللہ سے سن رہے ہیں، چاہے یہ بہت اونچا درجہ اور مقام ہو۔
امام غزالی احیاء العلوم میں لکھتے ہیں کہ ایک بزرگ نے کہا کہ پہلے میں اس کتاب کو ایسے ہی پڑھتا تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ میں اس کو محمد رسول اللہؐ سے سن رہا ہوں، تو میرے مزے اور کیفیت میں اضافہ ہوگیا۔ پھر میں نے سوچا کہ میں تو اس کو جبریل امینؑ سے سن رہا ہوں، تو پھر یہ کیفیت اور دوبالا ہوگئی۔ اس کے بعد میں نے فرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے خود موجود ہوں، وہ میرے ساتھ ہی ہیں، وہی مجھے سنا رہے ہیں، وہی اس کتاب کو نازل کر رہے ہیں، اس کے بعد میرا مزا اور لطف، میری کیفیت کا کوئی اندازہ نہ رہا۔ اس کیفیت کی جتنی بھی کوشش کریں کہ حاصل ہو جائے، کم ہے۔
4۔یہ احساس ہو کہ جو بھی کہا جا رہا ہے، اس کا ہر لفظ میرے لیے ہے۔ اگر اہل ایمان سے خطاب ہو رہا ہے تو بھی، اور اگر منافقین سے ہو رہا ہے یا کافروں سے ہو رہا ہے تو بھی ہمارے لیے ہے کہ ہم ایسے نہ بنیں۔ گویا ہر لفظ میرے لیے ہے۔ اگر ایک ایک حصے کو کاٹ کر الگ کرنا شروع کر دیا کہ یہ مہاجرین کے لیے ہے میں تو مہاجر نہیں ہوں، یہ انصار کے لیے ہے میں تو انصار نہیں ہوں، یہ یہودیوں کے لیے ہے میں تو یہودی نہیں ہوں، توساری کتاب کا ستیاناس ہو جائے گا۔ یہ سمجھنا چاہیے کتاب کا ہر لفظ میرے لیے ہے۔
5۔کتاب جب آدمی پڑھتاہے تو اللہ تعالیٰ سے گفتگو اور مکالمہ کرتا ہے۔ ایک حدیث میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: سورۂ الفاتحہ میرے اور بندے کے درمیان برابر تقسیم ہے۔ جب بندہ کہتا ہے کہ الحمدللہ تو میں کہتا ہوں کہ بندے نے میری حمد بیان کی ہے۔ جب بندہ الرحمن الرحیم کہتا ہے تو میں کہتا ہوں کہ بندے نے میری ثنا کی ہے۔ جب بندہ کہتا ہے کہ مالک یوم الدین تو میں کہتا ہوں کہ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ہے۔ اس کے بعد جب وہ کہتا ہے کہ ایاک نعبد وایاک نستعین، اب میرے اور بندے کے درمیان معاہدہ ہوگیا، جو کچھ بھی مانگے گا میں اْس کو دوں گا۔ اْس کے بعد بندہ کہتا ہے کہ اھدنا الصراط المستقیم، اے اللہ تو ہمیں سیدھا راستہ دکھادے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بندہ قرآن مجید پڑھتا ہے، تو وہ اللہ تعالیٰ سے کلام کرتا ہے، مکالمہ کرتا ہے، اور یہ گفتگو آدمی اور اللہ کے درمیان چلتی رہتی ہے۔