چین کا فائدہ یا نقصان؟

525

 

فروری میں یوکرین پر روس کی لشکر کشی کے بعد سے اب تک دونوں ملکوں کے درمیان جتنی لڑائی ہوئی ہے اُسے دوسری عالمی جنگ کے بعد طویل ترین جنگ قرار دیا جارہا ہے۔ یوکرین اور روس دونوں ہی کو شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ یوکرین کا نقصان زیادہ ہوا ہے۔ امریکا اور یورپ کا گمان تھا کہ روس اس جنگ کو طُول نہیں دے گا اور کسی نہ کسی طور تیزی سے معاملات نمٹانے کی کوشش کرے گا مگر ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ امریکا اور یورپ نے مل کر یوکرین کو مضبوط کرنے کی ٹھانی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دونوں چاہتے ہیں یہ جنگ طُول پکڑے۔ اس جنگ کے طُول پکڑنے سے اور کچھ ہو نہ ہو، اسلحے کی فروخت ضرور بڑھے گی اور امریکا و یورپ کے اسلحہ ساز اداروں کی چاندی ہو جائے گی۔ ساتھ ہی ساتھ یورپ میں معاہدۂ شمالی بحرِ اوقیانوس کی تنظیم (ناٹو) کے ’’گاہک‘‘ بڑھیں گے۔ سوئیڈن اور فن لینڈ نے ناٹو کی رکنیت حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے۔ فن لینڈ کے صدر ساؤلی نینسٹو کہتے ہیں کہ اُن کا ملک بہت جلد ناٹو کی رکنیت کے لیے باضابطہ درخواست دے گا۔ یہ گویا روس کو مزید چِڑانا ہوا۔
سوال یہ ہے کہ چین کہاں کھڑا ہے؟ جب روس نے یوکرین پر لشکر کشی کی تھی تب امریکا اور یورپ نے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کی تھیں اور چین پر بھی دباؤ ڈالا تھا کہ وہ روس سے ترکِ تعلق کرے۔ روس کے لیے یہ پورا معاملہ بہت عجیب اور الجھا ہوا تھا۔ ایک طرف اُس نے روس سے وسیع البنیادی دوستی اور تعاون کا معاہدہ کر رکھا ہے اور دوسری طرف یوکرین سے بھی اُس کے تعلق بہت اچھے رہے ہیں۔ چینی قیادت نے روسی قیادت سے بھی ترکِ تعلق نہیں کیا اور یوکرین کو بھی ناراض کرنے سے گریز کیا ہے۔ امریکا اور یورپ یہ دیکھنے کے لیے بے تاب تھے کہ چینی قیادت کس طرف جاتی ہے۔ یہ بات دونوں کے لیے بہت حیرت انگیز اور افسوس ناک رہی ہے کہ چین نے خاصا متوازن رویہ اپنایا ہے۔ چین آج بھی یوکرین سے بہت کچھ لیتا ہے۔ معدنی پیداوار کے علاوہ وہ زرعی پیداوار بھی لی جاتی ہے۔ 2013 میں اس وقت کے یوکرینی صدر وکٹر یاکووچ نے روس کا طویل دورہ کیا تھا اور تب دونوں ممالک کے درمیان دوستی اور مفاہمت کے متعدد معاہدے ہوئے تھے۔ 2019 میں چین نے یوکرین سے تجارت اتنی بڑھائی کہ روس پیچھے رہ گیا۔ محض دو سال بعد یعنی 2021 میں تجارت میں 80 فی صد اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں اس کا حجم 19 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔
امریکا میں قائم بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے تجزیہ کار ڈیرک پامر کہتے ہیں کہ روس کو یوکرین میں خاصی بڑی منڈی ملی ہے۔ یوکرین کے لیے چینی مشینری کی برآمدات 10 ارب ڈالر سے زائد مالیت کی ہیں۔ چین کی نظر یوکرین میں ٹیکنالوجی مارکیٹ پر بھی تھی مگر اب جنگ کے باعث معاملات رُک گئے ہیں۔ ڈیرک پامر کے مطابق چین میں صنعتی سرگرمیاں اور تعمیرات جاری رکھنے کے لیے بہت بڑے پیمانے پر خام لوہے کی ضرورت پڑتی ہے۔ چین میں ضرورت کے مطابق خام لوہا پایا جاتا ہے نہ اُس کا معیار ہی بلند ہے۔ وہ خام لوہا آسٹریلیا اور برازیل سے خریدتا ہے۔ یوکرین سے بھی خام لوہا درآمد کیا جاتا ہے۔ اب چین کو خام لوہے کے حصول کے لیے نئے مقامات تلاش کرنا پڑیں گے۔ یوکرین میں جنگ جاری رہنا چین کے مفاد میں بھی نہیں۔ وہ دونوں ممالک سے کہتا رہا ہے کہ افہام و تفہیم سے کام لیں اور جنگ ختم کریں۔
نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی کے پروفیسر الیگزینڈر کُرلیوے نے حال ہی میں ’’میں یوکرین جنگ کے لیے صدر پیوٹن پر تنقید کیوں نہ کروں؟‘‘ کے زیر عنوان ایک مقالہ لکھا ہے جس میں اُنہوں نے کہا ہے کہ چین کو ماسکو سے دور نہ رکھنا ایک سنگین غلطی ہے۔ ایک الگ بحث ہے کہ روس نے یوکرین پر لشکر کشی کے بارے میں چین کو پہلے سے آگاہ کیا تھا یا نہیں مگر یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ چین کو اندازہ نہ تھا کہ یوکرین کی لڑائی اس قدر طُول پکڑے گی۔ روس اچھی طرح جانتا ہے کہ امریکا کم و بیش ایک عشرے سے چین کی طاقت گھٹانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ دوسری طرف بیجنگ بھی روس کے معاملے میں بھارت کی پالیسیوں میں پیدا ہونے والی نرمی پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ یوکرین میں جاری جنگ کے باعث چین کو یورپ میں سرمایہ کاری اور رابطوں کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے۔ چند برسوں کے دوران بیلٹ اینڈ روڈ انیشئیٹیو نے چین اور یوکرین کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ چائنا یورپ ریلوے ایکسپریس کے روٹ پر یوکرین ایک اہم اسٹاپ ہے اور یورپ میں ’’میڈ اِن چائنا‘‘ کلچر کو پروان چڑھانے میں یوکرین نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ جنگ کے ہاتھوں چین کے معاشی مفادات کو شدید دھچکا لگا ہے۔ چین نے ہتھیاروں اور دفاعی ٹیکنالوجی کے شعبے میں یوکرین سے اشتراکِ عمل بڑھایا ہے۔ سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی میں ایشین اسٹڈیز کے پروفیسر کانتی باجپائی کہتے ہیں کہ چین کو اول آخر اس بات کی فکر لاحق رہتی ہے کہ اُس کے ہاں صنعتی عمل جاری رہے اور تیار شدہ مال دنیا بھر میں بھیجا جاتا رہے۔ چین کو نئی منڈیوں کی تلاش رہتی ہے۔ یوکرین سے اس کے تجارتی تعلقات تیزی سے پنپ رہے تھے کہ جنگ ہوگئی۔ چینی قیادت اب متبادل منڈیاں تلاش کر رہی ہے تاکہ ترقی کی رفتار گھٹنے نہ پائے۔ امریکا اور یورپ کو روس بھی منہ دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایسے میں روس کا یوکرین میں الجھ جانا مغرب اور چین کو آمنے سامنے کھڑا کرنے میں اہم کردار ادا کرگیا ہے۔ چین کا اپنی جگہ ڈٹے رہنا عالمی سیاست و معیشت میں اُس کی پوزیشن مستحکم کرنے کا ذریعہ بنا ہے۔ ماہرین کو اندازہ ہے کہ یوکرین نے امریکا اور یورپ سے مشاورت کے بعد ہی روس سے ٹکرانے کے بارے میں کوئی فیصلہ کیا ہوگا۔ یوکرین جنگ کے نتیجے میں عائد کی جانے والی اقتصادی پابندیاں روس کو کمزور کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ دہلی کے فور اسکول آف مینیجمنٹ میں چینی امور کے ماہر فیصل احمد کہتے ہیں کہ یوکرین کی جنگ کے نتیجے میں اب چینی قیادت بحرِ ہند اور بحرالکاہل کے خطے پر زیادہ متوجہ ہوگی اور وہاں شدید نوعیت کی کشمکش شروع ہوسکتی ہے۔ افغانستان اور عراق کے معاملے میں امریکا کی ناکامی کے بعد اب کئی ممالک اپنے موثر دفاع کے لیے چین کی طرف دیکھنا پسند کریں گے۔ کورونا کی وبا کے دوران دنیا بھر میں چین کے خلاف شدید اشتعال پایا جاتا تھا۔ اب یہ اشتعال چین کی طاقت میں اضافے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ کاروبار، عالمی حکمرانی اور رابطہ کاری میں چین نمایاں ہے۔ بڑھتی ہوئی عسکری قوت بھی اُس کے لیے بہت سود مند ثابت ہوسکتی ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے حال ہی میں گلوبل سیکورٹی انیشئیٹیو کا مسوّدہ تیار کرنے کی بات بھی کی ہے۔ اس کا مرکزی نکتہ سرد جنگ کے زمانے کی ذہنیت کو ختم کرنا ہے۔ ممکنہ طور پر متعدد ممالک چین کے ساتھ جانا پسند کریں گے۔
بہ شکریہ: روزنامہ لوک سَتّا جن سَتّا (بڑودا، بھارت)