اے ابن آدم! بددعا سے بچو میں نے یہ درس اپنی اولادوں کو بھی دیا ہے اور خود بھی اس پر ہر وقت عمل کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ غرور سے دور رہتا ہوں کیوں کہ غرور تو صرف میرے اللہ کے لیے بنا ہے جو اس کائنات کا مالک و خالق ہے، میں نے اپنی آنکھوں سے بددعا کا اثر دیکھا ہے، یہ مارٹن کوارٹرز کا واقعہ ہے جہاں میں کسی زمانے میں رہتا تھا اور گرین وڈ اسکول میں زیر تعلیم تھا، ایک نابینا بڑی بی بھیک مانگتی تھیں۔ اس کا ایک آوارہ بیٹا تھا جو چرس کا نشہ کرتا تھا وہ شام کو آتا اور ماں سے زبردستی پیسے چھین کر لے جاتا ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں بڑی بی کے پاس سے گزر رہا تھا کہ ماں اور بیٹے کا پیسے کے اوپر جھگڑا ہورہا تھا چند لوگ رُک کر یہ تماشا دیکھ رہے تھے میں بھی وہاں رُک گیا۔ اُس دن بڑی بی بے حد غصے میں تھیں۔ میرے سامنے انہوں نے اپنے بیٹے کو ایک دعا دی کہ اللہ کرے تو بھی اندھا ہوجائے اور میری جگہ پر بھیک مانگے۔ یہ جملہ سن کر میں گھر آگیا۔ 3 سال کے بعد ہم مارٹن کوارٹرز سے سمن آباد شفٹ ہوگئے۔ 5 سال کے بعد جب میں اپنے ایک پرانے دوست سے ملنے مارٹن کوارٹرز آیا تو میں نے اُس بددعا کا اثر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ بڑی بی کی جگہ اس کا وہی نافرمان بیٹا بھیک مانگ رہا تھا۔ مجھے ماضی میں اس نابینا عورت کی وہ بددعا یاد آگئی۔ میرے دوست نے بتایا کہ بڑی بی کے انتقال کے بعد اس کے بیٹے کا روڈ پر ایکسیڈنٹ ہوا اور وہ نابینا ہوگیا وہ دن ہے آج کا دن میں خود بھی بددعا سے بچنے کی کوشش کرتا ہوں اور لوگوں کو بھی یہ درس دیتا ہوں۔
آج کے معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔ آج حاکم ہو یا ریاستی ادارے سب غریبوں کی بددعائیں لے رہے ہیں۔ اقتدار کے بھوکے انسان کو انسان نہیں سمجھتے۔ مراعات یافتہ طبقے کے ہاتھوں میں ریاستی ادارے کٹ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ تھانوں کا حال لے لیں رمضان کے مقدس مہینے میں عیدی کے نام پر کروڑوں روپے کمائے گئے، پان چھالیہ کا کاروبار کرنے والوں پر تو پولیس نے قہر ڈال دیا، اگر چھالیہ فروخت کرنا غیر قانونی ہے تو بھی آپ اس کو کیوں فروخت ہونے دیتے ہیں۔ گٹکا بنانا اور فروخت کرنا جرم ہے تو پھر آپ گٹکا بنانے والے سے رشوت لے کر اس کو کاروبار کی اجازت کیوں دیتے ہیں۔ آپ مجرم کو جرم کرنے کا موقع کیوں فراہم کرتے ہیں آپ یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ مین پوری اور گٹکے سے منہ کا کینسر ہوتا ہے مگر پھر بھی آپ کی سرپرستی میں یہ کام چل رہا ہے۔ دوسری طرف پانی چوری کرکے فروخت کیا جارہا ہے۔ عوام پانی کو ترس رہے ہیں اور ادارے بھاری رشوت کے بدلے عوام کے حصے کا پانی فروخت کررہے ہیں اور عوام کی بددعا لے رہے ہیں۔ سرکاری گوداموں سے گندم اور چاول غائب کردیا جاتا ہے۔ میں ایک ایسے افسر کو جانتا ہوں جو سرکاری گوداموں سے گندم چوری کرکے فروخت کرتے تھے۔ اُن کے 3 بچے ہوئے وہ معذور اور وہ بچے آج بھی زندہ ہیں۔ اُس افسر کی زندگی ایک المیہ بن چکی ہے۔ جس کو تھوڑے سے اختیار یا طاقت مل جائے وہ اپنے آپ کو فرعون سمجھنے لگتا ہے۔ معاشرے سے اخلاق، عاجزی و انکساری ختم ہوتی جارہی ہے۔ کل تک ملک کو لوٹنے والے سیاسی بیماری میں مبتلا تھے، زیادہ تر کے دل کمزور ہوگئے تھے، ان کے خلاف مقدمے قائم تھے یہ تمام مجرم آج دوبارہ اقتدار میں آگئے مگر وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ اللہ کے عذاب سے بچ گئے جس جس نے ملک کو لوٹا ہے غریبوں کی بددعائیں لی ہیں وہ بچے گا نہیں۔
عدلیہ سے عوام انصاف کی طالب ہوتی ہے مگر افسوس کے 10 سے 20 سال باآسانی گزرنے کے بعد بھی انصاف نہیں مل پاتا اور اگر کیس میاں فیملی یا کسی بااثر شخصیت کا ہو تو رات میں بھی عدالت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ اربوں کی کرپشن کرنے والوں کو 10 سے 20 لاکھ کی ضمانت پر آزادی کا تحفہ دے دیا جاتا ہے۔ آج ملک کا جو یہ حال ہے، معاشرتی ناہمواری ہے اس کی وجہ ناانصافی بھی ہے۔ ڈاکٹرز حضرات جن کو عوام اپنا مسیحا سمجھتے ہیں وہ دونوں ہاتھوں سے مریضوں کو لوٹنے میں لگے ہیں، ہزاروں روپے کے مریضوں کو ٹیسٹ لکھ کر دے رہے ہیں، صرف اپنے کمیشن کے لیے مریضوں کو یہ بھی ہدایت ہوتی ہے کہ جو دوا لکھ کر دی ہے اس کمپنی ہی کی لینی ہے کیوں کہ کمپنی سے کمیشن لینا ہے، غیر ملکی دورہ بھی کرنے ہیں، نئی گاڑی بھی ملے گی۔ ارے کیا سب اپنی موت کو بھول گئے ہیں، سوشل میڈیا پر ایک بددعا کے حوالے سے ایک تحریر نظر سے گزری ہے۔ قارئین توجہ سے مطالعہ کریں اور وہ سرکاری افسران جو اختیارات ملنے پر فرعون بن جاتے ہیں یہ اُن کے لیے بھی ایک سبق ہے۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف ایک غریب علاقے سے گزر کر جاتے یہ اسلام آباد کی بات ہے، مشرف صاحب نے غریبوں کی وہ جھونپڑیاں ہٹانے کا حکم دیا آپریشن ہوا اور چند گھنٹوں میں وہ جگہ صاف ہوگئی۔ اس زمین کو فارم ہائوسز میں تبدیل کردیا گیا اور وہ فارم ہائوسز امرا نے خرید لیے۔ یہ کہانی ختم نہیں ہوئی، ایک روز ایک صاحب وہیل چیئر پر آئے وہ ٹانگوں سے معذور تھے اور چہرے سے بیمار دکھائی دیتے تھے۔ انہوں نے کہانی سنائی کہ اس آبادی کے آپریشن کو وہ لیڈ کررہے تھے۔ وہ سی ایس پی افسر تھے، وہ رٹ آف دی گورنمنٹ کے بہت بڑے حامی تھے، انہوں نے فورس لی اور اُن غریبوں کے گھر گرانا شروع کردیے۔ پولیس نے ڈنڈے برسائے، غریبوں کو گرفتار کیا، ہوائی فائرنگ بھی کی، اس معذور افسر کے 3 بچے تھے، دو لڑکے اور ایک لڑکی۔ آپریشن ختم ہونے کے بعد ملبہ اٹھانے کا کام شروع تھا، وہاں ملبے پر ایک بزرگ عورت بیٹھی تھی وہ وہاں سے اُٹھ نہیں رہی تھی۔ اُس کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ وہ کہتی تھی کہ مجھے اس سے ملنا ہے تو وہ سرکاری افسر اس خاتون کے پاس گیا تو اس بزرگ خاتون نے اوپر منہ کیا اور کہا یا اللہ ہم سے ہمارے گھر چھیننے والے تمام لوگوں کو برباد کردے۔ اس کے بعد اس نے اپنے بچے ساتھ لیے اور چلی گئی۔
اس سرکاری سابق افسر نے روتے ہوئے بتایا کہ وہ دن جس دن اس بزرگ عورت نے مجھے بددعا دی تھی جب سے اب تک وہ بحرانوں سے نہیں نکل سکا۔ اس کا ایکسیڈنٹ ہوا جس میں اس کی بیوی اور بیٹی اللہ کو پیاری ہوگئی۔ اس کی ٹانگیں کٹ گئیں اس نے دونوں بیٹے شدید بیمار ہوئے۔ اس نے اپنی ساری جمع پونجی ان کے علاج پر لگادی، لیکن دونوں بیٹے فوت ہوگئے، جو اپنا گھر تھا وہ بک گیا اور دوسرا گھر 2005ء کے زلزلے میں گر گیا۔ محکمے سے بھی ڈس مس ہوا، بے گناہی کے باوجود آج تک بحال نہیں ہوسکا۔ بے شمار امراض نے آلیا، رشتے دار اور دوست بھی اس کا ساتھ چھوڑ کر چلے گئے۔ مجھے ہر پل اس عورت کی بددعا یاد آتی ہے۔ جنرل مشرف جس کے حکم پر میں نے آپریشن کیا وہ بھی لاچاری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس آپریشن کا حکم دینے والا ہر شخص ذلیل ہوا اس وقت کے چیئرمین سی ڈی اے کی ساری پراپرٹی بھی بک گئی اور اس کی اولاد بھی دربدر ہوگئی، وہ بھی عبرت کا نشان بن چکا ہے، ہم سب کو اس عورت کی بددعا کھا گئی۔ یہ سب لکھنے کا میرا ایک مقصد ہے کہ اللہ کے واسطے کسی مظلوم کی بددعا نہ لو، نہیں تو دنیا اور آخرت دونوں کی ذلت تمہارا مقدر بن جائے گی۔ سرکاری ادارے ہوں یا سرکاری افسران وہ اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ ہرگز نہ اٹھائیں، دل سے جو آہ نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔