عمران اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کے بجائے سیاسی مخالفین کو ہدف بنائیں ، پرویز الٰہی

85

اسلام آباد (صباح نیوز) اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے سابق وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ہ اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی کے بجائے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنائیں، عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعلقات میں بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہوں۔ امریکی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں چودھری پرویز الٰہی نے کہا کہ حکومت وقت کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور اسٹیبلشمنٹ نے کچھ نہیں کیا، کیا اس سے زیادہ نیوٹرلٹی ہوتی ہے لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ وہ نیوٹرل نہیں، وہ نیوٹرل ہیں۔اس سوال پر کہ عمران خان کی حکومت اسٹیبلشمنٹ نے گرائی یا امریکی سازش نے؟ پرویز الہٰی نے جواب دیا کہ مناسب نہیں ہے کہ اس وقت کوئی ایسی بات کریں جس کا فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہو۔انہوں نے کہا کہ ہماری بھی کوشش ہے کہ عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات بہترہوں، خان صاحب کے پاس جب بھی گئے ، یہی کہا کہ ہمیں لڑائی والا کام نہیں کرنا،کوئی فائدہ نہیں، ہماری ڈائریکشن یہ ہونی چاہیے کہ ہم سیاسی مخالفین کو ہٹ کریں۔اسپیکر پنجاب اسمبلی کا کہنا تھا کہ حکومت کیوں بے ساکھیاں ڈھونڈ رہی ہے وہ کسی اور کی مداخلت کیوں چاہتی ہے؟، حکومت ڈیلیور کرکے دکھائے اور اشیا کی قیمتیں نیچے کرکے دکھائے، شہباز شریف اپنی مکینکی دکھائے اور بجلی کا مسئلہ حل کرے۔،معیشت کو فوری سہارا نہ ملا تو حالات قابو سے باہر ہوسکتے ہیں۔پرویز الٰہی نے مزید کہا کہ شریفوں کے ساتھ 22 سال رہا ہوں، ان کے ہاتھ مجھے لگ چکے ہیں، شریفوں کا ہمارے ساتھ تعلقات کا ٹریک ریکارڈ اچھا نہیں تھا، شریفوں نے ہمیشہ ہمارے ساتھ دھوکا کیا اور ہم نے ہمیشہ ساتھ دیا ہے، اب شریفوں کاساتھ دے کر باربار وہی غلطی دہرانا نہیں چاہ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ وفاقی سطح پر جلد الیکشن کرائے جائیں، جلسے اور لانگ مارچ کا دباؤ الیکشن کرانے کے لیے ہے جبکہ عمران خان چاہتے ہیں کہ صوبائی حکومتیں اپنی مدت پوری کریں۔ پرویز الٰہی نے کہا کہ(ق) لیگ میں کوئی اختلاف نہیں، شجاعت صاحب کی جوپارٹی ہے وہی ہے اور طارق بشیرچیمہ پارٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں وہ ہمارے ساتھ ہیں، ہم سب اکٹھے ہیں جب کہ طارق بشیر وزیر بنے ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے، یہ حکومت کتنی چلنی ہے، وزارتیں ختم ہونی ہیں تو انہیں گھرپرہی آنا ہے۔انہو ں نے کہا کہ عمران خان دور میں خارجہ پالیسی پر اسٹیبلشمنٹ سے اونچ نیچ ہوتی رہی، اور معاملات حل بھی ہوتے رہے، کوشش ہے عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے تعلقات بہتر ہوں۔