پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے کہ عمران خان جس ویڈیو کا ذکر کررہے ہیں وہ سامنے لائیں، شہباز شریف سے زیادہ سیکورٹی ملے گی۔ اسٹیبلشمنٹ نے تمہارا نمبر بلاک کردیا ہے۔ مریم نواز ایک پارٹی کی نائب صدر ہیں ان کا حکومت میں کوئی منصب نہیں ہے۔ کوئی ذمے داری نہیں ہے لیکن وہ ایسے بیانات دے رہی ہیں جیسے وہ ملک کی وزیراعظم ہیں۔ اور یہ اعلان بھی کررہی ہیں کہ عمران خان جس نمبر پر فون کررہے ہیں وہ بدل گیا ہے ان کو کس نے بتایا کہ وہ نمبر بدل گیا ہے کیا ان کے پاس اسٹیبلشمنٹ کے کسی نمبر سے کالز آتی ہیں نمبر بلاک کرنے اور نہ کرنے کی باتیں بتارہی ہیں کہ سب کچھ ویسا ہی ہے کوئی سیاست سے لاتعلق نہیں۔ اسی قسم کی بیان بازی عمران خان بھی کررہے ہیں۔ اور ان کا بھی اب کوئی ذمے دارانہ رول نہیں رہا۔ اس سے محسوس ہورہا ہے کہ ملک میں جلد کوئی اکھاڑ پچھاڑ ہونے والی ہے۔ یہ تجزیہ پہلے کیا جاچکا ہے کہ ساری لڑائی کسی اور کی ہے اور اسے سیاست پر ڈالا جارہا ہے۔ مریم نواز کی بیان بازی پر حکومت کو وضاحت کرنی چاہیے کہ وہ کس حیثیت سے بیان دے رہی ہیں۔ کیا ان کے چچا وزیراعظم ہیں اس لیے یا ملک پر شریف خاندان کی بادشاہت قائم ہے کہ بادشاہ کی بھتیجی شہزادی، لوگوں میں سیکورٹی کے پروانے تقسیم کرتی پھرے۔ عمران خان کی سیکورٹی حکومت کی ذمے داری ہے اور وہ اپنی مبینہ ویڈیو پر جتنا اصرار کررہے ہیں۔ اس سے اشتباہ بڑھ ہے ۔ انہوں نے اگر کسی کا بھی نام لے لیا تو کیا یہ ثابت ہوگیا کہ وہ ان کے قتل کا مرتکب ہے۔ زیادہ سے زیادہ چند ناموں اور ان کا جواز اس ویڈیو میں پیش کیا گیا ہوگا جو یقینا ثبوت نہیں محض الزام ہوگا۔ ایسے بیانات کی وجہ سے ملک میں جو شدید تلخی اور کشیدگی پیدا ہورہی ہے وہ نہایت خطرناک شکل اختیار کرسکتی ہے۔ ملک میں نہایت خطرناک تقسیم ہورہی ہے۔ ایسے میں پھر عدالت عظمیٰ پر ذمے داری آرہی ہے کہ وہ عمران خان کو طلب کرکے ویڈیو سامنے لانے پر مجبور کرے۔ عدالت عظمیٰ اس ویڈیو کو پہلے خود ملاحظہ کرے پھر مناسب ہو تو اسے عام بھی کرے تا کہ لوگ اندھیرے میں نہ رہیں۔ جس قسم کی الزام تراشی ہورہی ہے وہ نہایت سنگین ہے۔ ادارے شاکی ہیں، پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات کو بھی خطرے میں ڈالا جارہا ہے۔ عدلیہ پر بھی انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں۔ ادارے ساتھ دیں تو سب اچھا لگتا ہے۔ عدالت حمایت میں فیصلہ دے تو سب ٹھیک لگتا ہے اور حکومت ملے تو ٹھیک، نکالا جائے تو واویلا۔ یہ رویہ ملک میں نہایت خطرناک تقسیم کررہا ہے۔ اگر عدالت عظمیٰ نے اس معاملے کو حل نہیں کیا تو پھر یہ مسئلہ سلجھے گا نہیں۔ عمران خان جس ذمے دار منصب پر فائز رہے ہیں اس کا تقاضا ہے کہ وہ ذمے داری کا مظاہرہ کریں پورے ملک کو جلسہ گاہ نہ بنائیں۔ وزیراعظم شہباز شریف اور پوری مخلوط حکومت مریم نواز کے بیانات کا نوٹس لے کہ انہیں کس نے حق دیا ہے کہ وہ سرکاری ترجمان بن جائیں۔ خصوصاً مریم نواز اور عمران خان کی زبانیں نہایت غیر معیاری ہیں۔ عمران فتنہ یا عمران کو تم کہہ کر مخاطب کرنا بھی غیر مہذبانہ ہے۔ اور عمران خان چار سال وزیراعظم رہ کر بھی لندن میں بیٹھے چور کو نہیں لاسکے، بار بار چور ڈاکو چور ڈاکو کی تکرار نہ کریں، اگر چار سال میں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو آپ نااہل ہیں یا مقدمات جھوٹے تھے۔ جس طرح طویل عرصے تک چور چور کی صدائوں نے اور نعروں نے ان کو مظلوم بنادیا اسی طرح اب وہ خود مظلوم بن رہے ہیں۔ یہی زبان بلاول زرداری بھی استعمال کررہے ہیں کہ عمران چاہتا تھا۔ کسی کو بھی مخاطب کرنے کا یہ انداز درست نہیں۔ رانا ثنا اللہ کم از کم اپنے نام کی لاج رکھیں اللہ کی ثنا کرنے والے بنیں تمیز کے دائرے میں رہیں تو اچھا ہے۔ یہ ساری کیفیت تو یہی بتارہی ہے کہ یہ تینوں پارٹیاں اپنی انتخابی مہم چلانے میں مصروف ہیں۔ اس حکومت کو مجبور کیا جائے گا کہ فوری انتخابات یا نگراں حکومت کے آپشن میں سے کسی کو اختیار کیا جائے۔ اس کی خبر بھی سامنے آگئی اور وزیراعظم نے اجلاس بھی طلب کرلیا ہے۔ دیکھیں یہ مل کر کیا گل کھلاتے ہیں۔