سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے

721

عمران خان سے کسی کو لاکھ اختلافات ہوں لیکن مجھ سمیت سب کو یہ بات ماننی پڑے گی کہ ’’نیوٹرل‘‘ کچھ نہیں ہوتا۔ انگریزی کے لفظ نیوٹرل کا ترجمہ اگر اردو میں کیا جائے تو ’’غیر جانب دار‘‘ اس کا قریب ترین ترجمہ بنتا ہے۔ لیکن اردو کے غیر جانب دار اور انگریزی کے لفظ نیوٹرل کے مفاہیم میں بہت واضح فرق نظر آئے گا۔ اردو کا غیر جانب دار غیر فعال نہیں ہوتا البتہ وہ فریقین کے اختلافات میں کسی کی پارٹی نہ ہوتے ہوئے بھی رائے طلب کرنے پر یا تو اپنی اور کوئی رائے پیش کرکے معاملات کو نمٹانے کی کوشش کرتا ہے یا پھر ان میں سے کسی ایک کی رائے کو زیادہ حق بجانب سمجھتے ہوئے اپنا وزن اس میں ڈال دیتا ہے گویا اردو کا غیر جانب دار ایک ایسے جج کا کر ادا کرتا ہے جس کے نزدیک پارٹی نہیں بلکہ سامنے آنے والی آرا کی اہمیت ہوتی ہے جبکہ انگریزی کا نیوٹرل بہر لحاظ غیر فعال ہوتا ہے اور کسی کے ساتھ بھی کھڑا ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتا خواہ حالات کوئی بھی صورت اختیار کر جائیں۔
پاکستانی سیاست پر اگر نظر ڈالی جائے تو سنگین ترین معاملہ یہ رہا ہے کہ ایک ادارہ جو سر ِ آئینہ اور پس ِ آئینہ کا روپ ایک دوسرے سے واضح طور پر مختلف رکھتا چلا آیا ہے، پاکستان کی سیاست کے ہر مشکل وقت میں اس بات کا اظہار تو بہت شدت کے ساتھ کرتا ہے کہ اس کا سیاسی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں، لیکن حقیقتاً بہت گہرا تعلق رکھتا ہے اور اب ستر پچھتر برس کے بعد عالم یہ ہو گیا ہے اس قسم کے سنگین حالات میں پورے ملک کی ہر سیاسی جماعت اپنی مہم چلانے سے پہلے بار بار مڑ کر اسلام آباد کی مخالف سمت دیکھ رہی ہوتی ہے کہ اب جو کچھ وہ کرنے جارہی ہے اس پر ’’صاحب‘‘ لوگوں کی کیا رائے ہے لیکن ملک کے ہر سیاستدان اور سیاسی پارٹی کا رخ اپنی جانب پا کر ادارہ کمال ِ ہوشیاری کے ساتھ یہ بیان جاری کر دیتا ہے کہ ہمارا ملک کے سیاسی معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ معاملات جن کے بھی ہوں ان ہی کو نمٹانے چاہئیں لیکن یہ کہہ دینا یا سمجھ لینا کہ اداروں اور اداروں کا آپس میں ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، بالکل غلط ہے اس لیے کہ یہ کسی طور ممکن نہیں کہ ریاست کا ہر ادارہ ایک دوسرے کی جانب سے آنکھیں بند کرکے بیٹھ جائے اور کسی بھی افراتفری کی جانب نظر نہ کرے۔ ریاست تو ایک بہت وسیع موضوع ہے، کوئی خاندان بھی ایسا نہیں ہو سکتا جس کے تمام افراد غیر فعال غیر جانب داری کا رویہ اختیار کر لیں۔ بے شک گھر کے ہر فرد کا اپنا اپنا ایک الگ مقام ہوتا ہے اور اپنا اپنا دائرہ کار بھی لیکن یہ کسی طور بھی ممکن نہیں کہ کسی جگہ بگاڑ کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے باقی افرادِ خانہ آنکھیں اور کان بند کر کے بیٹھ جائیں۔
پاکستان میں ہر ادارے کے لیے ایک طریقہ کار طے کرکے اسے آئین کا پاسدار بنا دیا گیا ہے لیکن ہر ادارہ ہر دوسرے ادارے سے بالکل ہی لاتعلق نہیں رکھا گیا ہے لہٰذا مشکل اور پر پیچ صورت حال میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ادارے ریاست اور ریاست میں کسی بحرانی شکل کو سنبھالنے میں اپنے تئیں ایکشن لیکر حالات کو درست رخ پر لانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ عدالتیں رات کے بارہ بجے بھی کھولی گئی ہیں اور ڈھائی بجے بھی عدالتی فیصلے سامنے آئے ہیں۔ مارشل لا بھی لگے ہیں اور جمہویت کو بحال رکھنے کا عزم بھی سامنے آتا رہا ہے اور یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ حقیقتاً ’’نیوٹرل ازم‘‘ کی کوئی حقیقت نہیں۔
پاکستان اس وقت جس آئینی بحران سے گزر رہا ہے اس میں عمران خان کا بار بار یہ کہنا کہ نیوٹرل کوئی چیز نہیں ہوتی اور ریاست کو بحران سے نکالنے کے لیے یہ بہت ضروری ہو گیا کہ ادارہ اپنا کردار ادا کرے، کسی طور غلط نہیں۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ بقول خان صاحب وہ حق پر ہیں اور مخالفین کفر کے راستے پر گامزن ہیں، درست نہیں، لیکن جس قسم کی صورتِ حال جنم لے چکی ہے وہ اس بات کی متقاضی ہے جو بھی فیصلہ ہو وہ جتنی جلد ممکن ہو کر لیا جائے ورنہ خدا نخواستہ حالات قابو سے باہر بھی ہو سکتے ہیں۔
گزشتہ دو چار ماہ سے ادارہ نیوٹرل دکھائی دیتا ہے لیکن یہ اردو والا غیر جانب دار نہیں۔ باالفاظِ دیگر ادارے کا کردار غیر فعال سا ہو کر رہ گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی اپنے آپ کو نیوٹرل کر لینے بعد یہ کہے کہ ’’اچھا دیکھیں کہ تم سب آپس میں حالات کو کیسے سنبھال سکتے ہو‘‘۔ اگر ایسا ہی ہے اور جیسا کہ محسوس ہو بھی رہا ہے تو یہ بات ریاست کے لیے خوش آئند نہیں۔ یہ بالکل اس طرح کی بات ہو گی کہ کرکٹ کا کوئی امپائر کسی کے آؤٹ ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ٹیموں پر یہ کہہ کر چھوڑدے کہ میں تو نیوٹرل امپائر ہوں تم خود آپس میں فیصلہ کرلو۔ اگر ماضی کے بے شمار فیصلے ’’فون کالز‘‘ پر ہوتے رہے ہیں تو آئین و قانون کی خلاف ورزی سے اجتناب کرتے ہوئے کیا حال میں ایسا ممکن نہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔