اسلام آباد ہائیکورٹ کا مسجد نبوی واقعہ پر مقدمات درج نہ کرنے کا حکم

232

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پولیس کو مسجد نبوی واقعہ پر مقدمات درج نہ کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے مسجد نبوی واقعے پر فواد چوہدری، قاسم سوری اور شہباز گل کی درخواستوں پر سماعت کی، اس موقع پر فواد چوہدری عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے پی ٹی آئی رہنماؤں کی درخواستوں کو یکجا کرکے سماعت  کی۔

فواد چوہدری نے عدالت میں بیان دیا کہ میں حاضر ہو گیا ہوں، حیران ہوں ان کیسز پر، مارشل لا بھی رہا مگر کسی حکومت نے توہین مذہب کےقانون کواس طرح استعمال نہیں کیا، وزیر داخلہ کے بارے میں نہیں کہتا، مگر وزیر قانون پر حیرت ہے۔ فواد چوہدری نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم نے کوئی فساد تو نہیں کرانے، ایک دوسرے کی لاشوں پر چڑھ کر تو وزیر نہیں بننا ہوتا، ایسا رواج شروع کیا ہے کہ اس کے سنگین نتائج ہیں۔

چیف جسٹس نے فواد چوہدری سے استفسار کیا کہ کیا یہ عدالت اس کیس میں کارروائی کو آگے چلائے؟، آپ کو اس پر اعتماد ہے؟، اس پر سابق وزیر نے کہا کہ عدالت پر اعتماد نہیں ہوگا تو کس پر ہو گا؟۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سیاسی قیادت ہی سوسائٹی میں تبدیلی اور صبر لاسکتی ہے، مذہب کو سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرنا خود توہین مذہب ہے، اس طرح 2018 میں بھی ہوا اور پہلے بھی ہوتا رہا، یہ بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ایک غیر ملکی کو سیالکوٹ میں مارا گیا اور مشال خان کا واقعہ بھی سامنے ہے، یہاں پر بھی جو کیسز درج ہو رہے ہیں وہ درست معلوم نہیں ہوتے۔

عدالت نے مسجد نبوی واقعہ پرکیسز کے خلاف قاسم سوری کی درخواست پروفاق اور دیگرکونوٹس جاری  کردیا۔

ایف آئی اے نے عدالت میں جواب کرایا جس میں مؤقف اپنایا کہ مسجد نبوی واقعہ کے تناظر میں کاؤنٹرٹیررازم ونگ اورسائبر کرائم ونگ میں کوئی کارروائی شروع نہیں ہوئی۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایف آئی اے کے جواب کے بعد کہا کہ واقعے پرمقامی پولیس نےکارروائیاں کی ہیں۔

عدالت نے مسجد نبوی واقعے پر پولیس کو مقدمات درج نہ کرنے کا حکم دے دیا۔