ملک میں جلد انتخابات کا کوئی امکان نہیں،شہباز نواز متفق

27678

لندن/اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک+آن لائن) وزیراعظم شہباز شریف اور ن لیگ کے قائد میاں محمد نواز شریف کی ملاقات کے دوران اتفاق پایا گیا ہے کہ ملک میں جلد انتخابات کا کوئی امکان نہیں، انتخابی اصلاحات مکمل ہونے کے بعد ہیجنرل الیکشن ہوںگے۔ وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کے اراکین کے ہمراہ لندن میں اپنے بڑے بھائی سے اہم ملاقات کی ، نوازشریف گرم جوشی سے ملے اورشہباز شریف کو تھپکی بھی دی۔ ملاقات میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال سمیت اہم معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔شہباز شریف نے پارٹی قائد نواز شریف سے ون آن ون ملاقات بھی کی جس میں عام انتخابات کے حوالے سے بات چیت ہوئی اور خاص طور پر پی ٹی آئی کی جانب سے جلد انتخابی مطالبے پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ملاقات کے دوران لیگی قائد نے سابق صدر مملکت اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے فون پر ہونے والی گفتگو سے وزیراعظم کو آگاہ کیا۔ذرائع کے مطابق ملاقات کے دوران اتفاق پایا گیا کہ معیشت سے متعلق تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔اجلاس کے دوران نواز شریف نے عوام پر مہنگائی کاکم سے کم بوجھ ڈالنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کی ہدایت کردی جبکہ ن لیگ کو عام انتخابات کے لیے تیاریوں کی ہدایت کر دی۔دوران ملاقات عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر وزرا اور اراکین کی کرپشن کو ثبوت کے ساتھ عوام کے سامنے لانے اور ن لیگ نے ضلعی سطح پر پارٹی کو منظم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔نواز شریف نے کہا کہ ن لیگ کے کارکنوں کو خاص اہمیت دی جائے، جلد از جلد آئینی اصلاحات کا عمل مکمل کیا جائے، تحریک انصاف کی حکومت نے پاکستان کو پستیوں کی طرف دھکیلا، مشکل وقت میں ساتھ کھڑے ہونے والے اراکین اسمبلی کارکنوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف آج جمعرات کو اہم پریس کانفرنس کریںگے۔ پریس کانفرنس میں وزیراعظم شہباز شریف اور ان کی کابینہ کے اراکین بھی موجود ہوںگے۔ جس میں عمران خان کو ہٹانے کی وجوہات بتائیں گے۔ذرائع کے مطابق سابق وزیراعظم آئندہ عام انتخابات سے متعلق بھی اہم اعلان کریںگے۔ن لیگ نواز شریف کی طرف سے معاشی بحرانوں سے نمٹنے اور تیل کی قیمتوں بارے بھی حکمت عملی سے آگاہ کریں گے۔ادھر وزیر دفاع خواجہ آصف نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ ممکن ہے نئے آرمی چیف کی تعیناتی سے قبل ہی نومبر میں انتخابات کرا دیے جائیں،یہ بھی ہو سکتا ہے کہ نومبر سے پہلے نگراں حکومت چلی جائے اور نئی حکومت آ جائے۔ ان کا کہنا تھا آرمی جنرل قمر جاوید باجوہ خود اعلان کر چکے کہ انہیں مدت ملازمت میں توسیع نہیں چاہیے، اس اعلان کو خوش آئند سمجھتا ہوں،جنرل باجوہ کے اس اعلان سے قیاس آرائیوں کے دروازے بند ہوئے ہیں۔خواجہ آصف نے کہا کہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف نے بھی کبھی مدت ملازمت میں توسیع کا براہ راست یا بالواسطہ مطالبہ نہیں کیا۔نواز شریف جنرل راحیل شریف کو نہیں جانتے تھے،جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعیناتی کے وقت انہیں وزیراعظم اس لیے جانتے تھے کہ وہ راولپنڈی کور کمانڈ کر رہے تھے، مگر دونوں مرتبہ ادارے کی تجویز کا احترام کیا گیا اور اسی دائرے میں رہتے ہوئے دونوں سربراہان تعینات کیے گئے، اب بھی اسی طرح میرٹ پر تعیناتی ہو گی۔ وزیردفاع کا کہنا تھا کہ اگر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام سینیارٹی لسٹ میں ہوا تو ان کے نام پر بالکل غور کیا جائے گا، ان سب ناموں پر غور ہو گا جو اس فہرست میں موجود ہوں گے، فوج فیض حمید کا نام بھیجے تو وزیراعظم کے پاس یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہوتی ہے کہ 5 کے بجائے 3 یا 8 نام بھیجیں۔ انہوںنے کہا کہ گزشتہ ماہ جو ہوا وہ موقع دیتا ہے کہ ہم اب ایک نئے باب کا آغاز کریں، آئین کی متعین کردہ حدود کی پاسداری کریں، اسی میں پاکستان کی بقا ہے۔ خواجہ آصف کے بقول فوج کا ایک تقدس ہے اور یہ پبلک ڈومین میں موضوع بحث نہیں بننا چاہیے، فوجی سربراہ کی تعیناتی کا طریقہ کار اب ’انسٹی ٹیوشنلائز‘ ہونا چاہیے، یہ عمل انسٹی ٹیوشنلائز کرنا چاہیے جیسے عدلیہ میں ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا میری رائے ہے آرمی چیف کی تعیناتی کا طریقہ کار 100 فیصد میرٹ پر ہو، آرمی چیف کی تعیناتی بڑا اہم معاملہ ہے اسے سیاسی بحث نہیں بنانا چاہیے، نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے معاملے پر عمران خان اپنی ذاتی مرضی چاہتے تھے، عمران چاہتے تھے ان کے سیاسی مفادات اور حکمرانی کے تسلسل کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے،ایسا نہیں ہے کہ ’ذاتی مرضی‘ روکنے کے لیے یہ تمام سرگرمی ہوئی، یہ وزیراعظم کی صوابدید ہے کہ فوج کے بھیجے ناموں میں سے کسی کو منتخب کر لے۔ خواجہ آصف کے مطابق عمران خان مقبول عوامی لیڈر ہیں مگر ان کے پاس کارکردگی کچھ نہیں ہے، کارکردگی نہیں اس لیے عمران دو تین بیانیوں کے پیچھے اپنی ناکامی چھپا رہے ہیں، عمران مذہب کی وکٹ پرکھیل رہے ہیں،ساتھ امریکا مخالف بیانیہ دہرا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ روایتی سیاستدانوں کے متبادل کے طور پر سامنے لائی تھی، عمران خان کوپروان چڑھایا گیا کہ نیا آدمی لایا جائے جس سے اسٹیبلشمنٹ کو کوئی مسئلہ نہ ہو، روایتی سیاستدان کے ساتھ کبھی پیار زیادہ ہو جاتا اور کبھی کم ہو جاتا تھا، اسٹیبلشمنٹ نے سوچا کہ اب یہ نیا آدمی ہے، سیاست میں تازگی لائی جائے۔وزیردفاع کے الفاظ میں یہ تجربہ کیا گیا اور اس سے ملک کو نقصان ہوا، آج عمران خان کو سوٹ نہیں کرتا کہ ادارے نیوٹرل ہو جائیں، وہ چاہتے ہیں کہ وہ اقتدار میں ہوں اور ادارے انہیں بیساکھیاں مہیا کریں، عمران خان کی جانب سے اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ ’شرمناک‘ ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ 4سال میں ہر چیز ایک شخص کی ذات کے گرد گھومتی رہی، فوجی ترجمان سے متفق ہوں کہ فوج پبلک پلیٹ فارمز پر اپنا دفاع خود نہیں کرسکتی، ہم یقینی طور پر اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل رول کا دفاع کریں گے، جس طرح عمران خان فوج پر حملے کر رہے ہیں، ایسا پہلے نہیں ہوا، میرے خیال میں عمران خان پیرانوئیڈ ہیں۔انہوں نے کہا کہ کسی ایک کو نہیں تمام اداروں کو ماضی کے تجربات اور حادثات سے سیکھنا چاہیے، موجودہ ملکی حالات میں حکومت سنبھال کر بڑا سیاسی رسک لیا ہے، میرے خیال میں یہ دھکا کسی نے نہیں دیا، ہم نے خود ہی چھلانگ لگائی ہے۔خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ملک اس وقت انتہائی مخدوش حالت میں ہے، عمران خان مزید 14 ماہ گزارتے تو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا، عمران خان کی حکومت یقینی طور پر ناکامی کی طرف جا رہی تھی، ایسا نہیں کہ عوام عمران کا دور اور بدانتظامی بھول گئی ہے، عمران خان کی سَلیٹ صاف نہیں ہوئی، ہمارے لیے یہ سیاسی رسک ہے مگر یہ رسک لینا ضروری تھا۔وزیر دفاع نے الزام عاید کیا کہ عمران خان کے ارد گرد موجود لوگ دولت جمع کر رہے تھے، عمران خان کا اپنا فنانشل بیک گراؤنڈ خاصا خراب ہے لیکن اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا۔ن لیگ کے سینئر رہنما نے دوران انٹرویو یہ بھی کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا مرکز اب علاقائی ممالک ہونے چاہئیں، روس اور یوکرین کی جنگ کے معاملے پر پاکستان کا مؤقف واضح ہے، روس یوکرین جنگ پر حکومت کی تبدیلی سے مؤقف میں تبدیلی نہیں آئی، یورپ کو یوکرین کی طرح ہی فلسطین اور کشمیر کے لوگوں کے ساتھ بھی ہونا چاہیے۔ایک سوال کے جواب میں خواجہ آصفکا مزیدکہنا تھا کہ فوجی اڈوں کا کوئی مطالبہ میز پر نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان ایسا کوئی مطالبہ قبول کرے گا۔