کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) اینٹی بائیوٹک ادویات جگر اور آنتوں کو متاثر کرتی ہیں‘ خطرناک جراثیم سر اٹھا رہے ہیں ‘ بلاضرورت مذکورہ دوائوں کے استعمال کی وجہ سے انفیکشن کا علاج مشکل، ذیابیطس، ڈائریا، متلی، بھوک کی کمی، گیس اور جان لیوا الرجیز ہوسکتی ہیں‘ کھانسی، نزلہ، زکام اور پھیپھڑوں کے ورم میں اینٹی بائیوٹکس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان خیالات کا اظہار معروف فزیشن ڈاکٹر عارف محمود، ڈاکٹر افشاں مراد، آغاخان اسپتال کے ڈاکٹر شاہد عقیل نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’اینٹی بائیوٹک ادویات کے مضر اثرات کیا ہیں؟‘‘ ڈاکٹر عارف محمود نے کہا کہجب اینٹی بائیوٹکس بلا ضرورت استعمال کی جائیں تو ان سے نقصان پہنچنے کا امکان بڑھ جاتا ہے‘ اس لیے انہیں دھیان سے استعمال کرنا چاہیے‘ کسی بھی کیمیکل کو اپنے جسم میں اندھا دھند شامل کرنا خطرناک ہوسکتا ہے‘ اینٹی بائیوٹکس کے مضر اثرات سے ڈائریا، متلی، بھوک کی کمی اور جان لیوا الرجیز ہوسکتی ہیں‘ اس کے علاوہ اینٹی بائیوٹکس کا بلا ضرورت استعمال آپ کے جسم میں موجود بیکٹریا کو مضبوط بنا سکتا ہے جس سے مستقبل میں انفیکشن کا علاج مشکل ہوسکتا ہے کیونکہ ہم اینٹی بائیوٹکس کا بلا ضرورت استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں اس لیے اب اس طرح کے جراثیم سر اٹھا رہے ہیں جو کئی دواؤں کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور وسیع پیمانے پر جانی نقصان پہنچاتے ہیں‘ ہم پہلے ہی جان لیوا اور دواؤں کے خلاف مزاحمت رکھنے والے بیکٹیریا جیسے MRSA وغیرہ کی مچائی ہوئی تباہی دیکھ چکے ہیں‘ اس حوالے سے کوئی ڈیٹا موجود نہیں کہ اینٹی بائیوٹکس کا استعمال کتنا بڑھ چکا ہے لیکن میں اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر کہتا ہوں کہ یہ بہت عام ہے۔ ڈاکٹرعارف محمود نے صرف گلے کی خرابی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ امریکا میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق خراب گلے کی وجہ بننے والے بیکٹریا ‘اسٹریپ’ صرف 10 فیصد لوگوں کی تکلیف کا ذمہ دار تھا، جبکہ خراب گلے کی شکایت کرنے والے60 فیصد افراد کو اینٹی بائیوٹکس تجویز کی گئیں اسی طرح سردی، کھانسی، نزلہ و زکام، اور پھیپھڑوں کے ورم میں اینٹی بائیوٹکس کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ان میں سے زیادہ تر بیماریاں وائرس کی وجہ سے ہوتی ہیں‘ اس طرح کی بیماریاں عام طور پر زیادہ پانی پینے، آرام کرنے اور ٹائلینول جیسی دوائیں لینے سے ختم ہوجاتی ہیں۔ ان کے لیے اینٹی بائیوٹکس لینا نہ صرف بیکار ہے، بلکہ نقصان دہ بھی ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر شاہد عقیل کا کہنا تھا کہ زیادہ تر ڈاکٹرز اینٹی بائیوٹکس بلا ضرورت تجویز کرتے ہیں کیونکہ ان کے مریضوں کو یہ وہم ہوتا ہے کہ وہ اینٹی بائیوٹکس لینے سے ہی ٹھیک ہوں گے‘ بچوں میں اینٹی بائیوٹکس کا استعمال خطرناک حد تک بڑہ گیا ہے ‘ یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے ڈاکٹر سے بیماری کی وجہ ضرور پوچھیں، اور اینٹی بائیوٹکس کے ممکنہ خطرات پر بھی بات کریں‘ ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے ہمیشہ اینٹی بائیوٹکس دینے میں بہت احتیاط سے کام لینا چاہیے‘ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے ڈاکٹر بھی ایسا ہی کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ اینٹی بائیوٹک کے زیادہ استعمال سے جسم اس کا عادی ہوجاتا ہے اور انسان کا جسمانی نظام اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت کرنا شروع کردیتا ہے‘ اینٹی بائیوٹک کے زیادہ اور غلط استعمال سے جسم میں پیدا ہونے والی مزاحمت میں بڑا اضافہ ہوا جاتا ہے اور اینٹی بائیوٹک ادویات انفیکشن کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہوجاتی ہیں‘ اس کے نتیجے میں اسپتال میں طویل قیام، مہنگے اور ممکنہ طور پر نقصان دہ متبادل علاج کا استعمال ہوتا ہے۔ ڈاکٹر افشاں مراد کا کہنا تھاکہ اینٹی بائیوٹیکٹس کی بہت ساری قسمیں ہیں‘ جن میں پینسلن ، وینکومیسن اور میتھکیسلن شامل ہیں۔ اینٹی بائیوٹک پینسلن پہلا اینٹی بائیوٹک تھا جسے دریافت کیا گیا تھا اور اسے بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا تھا۔1942ء میں یہ میننجائٹس کے علاج کے لیے استعمال ہوا تھا‘ اینٹی بائیوٹکس میں بہت زیادہ کیمیکلز ہوتے ہیں جن کا استعمال بیکٹیرئیل انفیکشن کے خاتمے کے لیے کیا جاتا ہے تاہم ان دوائوں کے استعمال کے دوران جگر کی کارکردگی متاثر ہو سکتی ہے۔ تحقیق کے مطابق ایک ہفتے کے دوران لی گئی اینٹی بائیوٹکس ایک سال تک انسانی جسم پر منفی اثرات چھوڑ سکتی ہیں‘ اکثر اوقات ان کے استعمال سے آنتوں میں موجود گڈ بیکٹیریا یعنی انسانی صحت کے لیے ضروری اور مثبت بکٹیریا کو بھی نقصان پہنچتا ہے‘ اینٹی بائیو ٹکس کے استعمال سے آنتوں میں موجود گڈ بیکٹیریا کے خاتمے کے نتیجے میں موٹاپا اور وزن میں اچانک اضافہ بھی ہو سکتا ہے‘ ہر دوا کا کوئی نہ کوئی سائیڈ افیکٹ ضرور ہوتا ہے‘ اس لیے جب تک انتہائی ضروری نہ ہو ، اینٹی بائیوٹک دوا نہیں کھانی چاہیے اور وہ دوا بھی ڈاکٹر کی تجویز کردہ ہی ہونی چاہیے۔ دواؤں کا استعمال بیماری کے علاج کے لیے ضروری ہے‘ صحیح وقت پر صحیح دوا جہاں ہماری جان بچاتی ہے ، وہیں غلط دوا کا استعمال ہمارے لیے مختلف بیماریوں کا سبب بھی بن سکتا ہے‘ جراثیم جب ہمارے جسم میں داخل ہوتے ہیں تو ہمارا مدافعتی نظام فعال ہو جاتا ہے‘ جسم اور بیکٹریا میں جنگ شروع ہو جاتی ہے جو طاقتور ہوتا ہے وہ دوسرے کو ہرا دیتا ہے‘ بیماریوں سے لڑنے کی طاقت کم ہونے کی وجہ سے ہم بیمار پڑتے ہیں‘ اینٹی بائیوٹک ادویات جسم میں موجود بیماریوں کے جراثیم کا تو خاتمہ کرتی ہیں مگر وہ ساتھ ہی ان ضروری بیکٹریاز کو بھی مار دیتی ہیں جو ہمارے جسم کے لیے ضروری ہیں اس لیے اینٹی بایوٹکس کا استعمال دیکھ بھال کر اور ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر ہرگز نہ کریں‘ ڈاکٹر تشخیص کے بعد نسخہ تجویز کرتا ہے کہ کس بیماری میں کب اور کتنی دوا ضروری ہے‘ ڈاکٹر ایک چیز اور بھی دیکھتا ہے کہ کچھ ادویات کچھ مریضوں میں مثبت اثر کرتی ہیں اور وہی ادویات دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان یعنی ری ایکشن کرتی ہیں‘ اس کی وجہ انسان میں پائے جانے والے مختلف جینز ہوتے ہیں جو ہمیں اپنے والدین سے ورثے میں ملتے ہیں۔ ڈاکٹر افشان مراد کے مطابق اینٹی بائیوٹک کا بہت زیادہ اور غیر ضروری استعمال الرجی اور انفیکشن کے خطرے کو بڑھا دیتا ہے۔ مسئلہ اس وقت اور پیچیدہ ہو جاتا ہے، جب ڈاکٹروں کی ہدایات کے بغیر اینٹی بائیوٹک کا استعمال کیا جاتا ہے‘ بدلتے ہوئے موسم میں نزلہ، زکام کے وائرس کی زد میں آنا عام بات ہے لیکن ہمارے ملک میں لوگ میڈیکل اسٹورز پر جاتے ہیں اور اینٹی بائیوٹکس لے کر ان امراض سے جلد نجات حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس سے لوگوں کو فوری طور پر آرام ضرور مل جاتا ہے لیکن ان ادویات کے منفی اثرات بعد میں نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا وقت آتا ہے جب آپ کے لیے اینٹی بائیوٹک کا استعمال کرنا ضروری ہو جاتا ہے جہاں یہ ادویات آپ کی بیماری ٹھیک کرتی ہیں وہیں ان کی وجہ سے کچھ ضمنی اثرات جیسے پیٹ کی خرابی ، گیس، اسہال وغیرہ کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ بہت زیادہ اینٹی بائیوٹکس استعمال کرنے والوں کو ذیابیطس کا مرض لاحق ہوسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک نئی طبی تحقیق کے مطابق اینٹی بائیوٹکس کے زیادہ استعمال سے ذیابیطس ٹائپ ٹو میں مبتلا ہونے کا امکان 53 فیصد بڑھ سکتا ہے‘ ذیابیطس ٹائپ ٹو اس وقت عالمی سطح پر ایک بہت بڑا چیلنج ہے‘ اس حوالے سے شوگر میٹابولزم پر ان ادویات کے طویل المعیاد اثرات کا جائزہ لے کر ہی یقینی طور پر کچھ کہا جاسکتا ہے۔