امید ہے حکومت آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی راہ میں حائل نہیں ہوگی ، چیف جسٹس

214

اسلام آباد(نمائندہ جسارت) چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ امیدہے کہ وفاقی حکومت آرٹیکل 63 اے کے صدارتی ریفرنس کی اہمیت سے واقف ہوگی اور حکومت ریفرنس کی تشریح کے راستے میں نہیں آئے گی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ نے آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ ریفرنس اور آئینی درخواستیں عدالت کے سامنے ہیں، بابر اعوان کے بعد اظہر صدیق کا موقف بھی سنیں گے، قانونی سوال پر عدالت اپنی رائے دینا چاہتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوال صرف آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا ہے، تشریح وفاق پر لاگو ہو یا صوبوں پر یہ ہمارا مسئلہ نہیں، عدالت کی جو بھی رائے سامنے آئے گی تمام فریق اس پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ آئین کا تحفظ ہمارا فرض ہے، آرٹیکل 63 اے کی تشریح کریں گے، پارلیمانی جمہوریت کے لیے آرٹیکل 63 اے کی تشریح ضروری ہے، ازخود نوٹس کسی کے کہنے پر نہیں بلکہ بنچ کی
مرضی سے لیا جاتا ہے،آئین کے اصولوں کو دیکھنا ہے ، انفرادی عمل کو نہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ منحرف ارکان کے خلاف الیکشن کمیشن میں ریفرنس فائل ہو چکے ہیں، نااہلی ریفرنس کے باوجود قانونی سوال اپنی جگہ پر موجود ہے، آرٹیکل 63 اے آئین کا حصہ ہے، الیکشن کمیشن میں نا اہلی ریفرنس کے باوجود آرٹیکل 63 اے کی تشریح کر سکتے ہیں۔پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ عدالت کا بڑا ادب اور احترام ہے جس پر جسٹس جمال نے کہا کہ لوگوں کو بتائیں کہ عدالت رات کو بھی کھلتی ہے،بلوچستان ہائی کورٹ رات ڈھائی بجے بھی کھلی۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن انحراف پر کسی رکن کو جھوٹا اور بددیانت قرار دے سکتا ہے؟ بابر اعوان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ کسی رکن کو بدیانت یا ایمان دار قرار دے سکے، پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میں اراکین اسمبلی نے کھلے عام دوسری جماعت کو ووٹ دیے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر مخلوط حکومت میں اراکین دوسری جماعت کو ووٹ دیں تو وہ بھی انحراف ہوگا؟ جسٹس جمال نے کہا کہ کیا نااہلی صرف ایک پارلیمانی جماعت سے دوسری جماعت میں جانے سے ہی ہوتی ہے؟ اگر کوئی ایک حلقے سے منتخب ہو اور قانون سازی سے اسی حلقے کا نقصان ہو تو کیا وہ رکن رو کر چپ ہو جائے؟بابر اعوان نے کہا کہ جو پارٹی کے نام پر جیت کر آئے اور اسے لگے کہ میں غلط جگہ پھنس گیا ہے تو استعفا دے دے۔ اس پر جسٹس اعجاز نے کہا کہ اگر اپنی جماعت کے خلاف جانا باضمیر ہونا ہے تو بھی استعفا ہی دینا چاہیے۔ بابر اعوان نے کہا کہ تحریک انصاف کے اراکین کسی اور کو ووٹ دے کر ابھی تک جماعت سے منسلک ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیدھا سادھا سوال ہے کہ انحراف پر ڈی سیٹ ہونے کے ساتھ نااہلی کی سزا ہونی چاہیے یا نہیں؟ انحراف پر ڈی سیٹ ہونے کا جو جرمانہ دیا گیا کیا عدالت اسے بڑھا سکتی ہے؟بابر اعوان نے کہا کہ یہ صورتحال اور کیس پہلی بار عدالت کے سامنے آیا ہے، اس کے لیے پنڈورا باکس کھول کر اندر سے ہی دیکھنا ہوگا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمیں آئین کی تشریح آج کے لیے نہیں آنے والی نسلوں کے لیے کرنی ہے، آئین ایک زندہ دستاویز ہے، آرٹیکل 63 اور 64 دونوں میں سیٹ خالی ہوجاتی ہے لیکن دونوں ایک نہیں ہیں، ہمیں آئین کی ان شقوں کے مقصد تک پہنچنا ہے،ہمیں آئین کے اصولوں کو دیکھنا ہے انفرادی طور پر لوگوں کے عمل کو نہیں، عدالت عظمیٰکو 25 منحرف اراکین سے کوئی غرض نہیں، آپ کے موکل کو سینیٹ انتخابات سے متعلق عدالتی رائے پر عمل درآمد نہ ہونے پر تشویش ہے تو درخواست کیوں نہیں دی؟چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت اور ایگزیکٹو کے فنکشنز میں فرق ہوتا ہے، عدالت واقعہ رونما ہونے کے بعد فیصلہ کرتی ہے کہ ٹھیک ہوا یا غلط، ریکوڈک کے معاملے پر ججز کے سامنے کتنے شواہد آئے تھے مخدوم علی خان کو معلوم ہے، ازخود نوٹس کے اثرات کی مثال دی جاتی ہے، ریکوڈک میں ایگزیکٹو اپنی ذمے داری پوری کرنے میں ناکام ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کوئی معاملہ عدالت کے سامنے لانا چاہتے ہیں تو درخواست دیں۔بابر اعوان نے کہا کہ سینیٹ الیکشن سے متعلق صدارتی رائے پر عمل درآمد میرے موکل کی نہیں الیکشن کمیشن کی کوتاہی ہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سینیٹ الیکشن سے متعلق ایک درخواست دکھا دیں آپ کی جماعت کی طرف سے آئی ہو۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ بات سوچیں کے یہ عدالت عظمیٰ ہے اور متاثرہ فریقین کو اسی کے سامنے آنا ہے۔بعدازاں عدالت نے تحریک انصاف کی آئینی درخواست پر بھی فریقین کو نوٹس جاری کردیے اور کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔