امپورٹڈ حکومت کا نعرہ سیاسی ہے‘ اہمیت نہیں دینی چاہیے

250

اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد)امپورٹڈ حکومت کا نعرہ سیاسی ہے‘ اہمیت نہیں دینی چاہیے ‘ تحریک عدم اعتماد آئینی اور جمہوری عمل ہے‘ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد تحریک انصاف کا بیانیہ اب خود اس کے گلے کا طوق بن گیا ہے ‘چین نے شہباز شریف کے وزیراعظم بننے پر خوشی کا اظہار کیا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار سفارتی تجزیہ کار اعجاز احمد،تجزیہ کار مظہر طفیل، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلٹس (دستور) کے صدر نواز رضا، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق جوائنٹ سیکرٹری چودھری اکرام، تجزیہ کار سمیع ابراہیم، مجلس فکرو دانش کے سربراہ عبدالمتین اخوندزادہ، سارک ایس ایم کمیٹی کے سابق وائس چیئرمین سجاد سرور اور فیڈریشن آف چیمبرز آف پاکستان کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سینئر رہنما طاہر آرائیں نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’ کیا شہباز شریف کی حکومت امپورٹڈ حکومت ہے؟ ‘‘ اعجاز احمد نے کہا کہ شہباز حکومت امپورٹڈ نہیں ہے‘ بھارت اور امریکا 2 ایسے ممالک ہیں جن کے مفادات پاکستان کے ساتھ ٹکراتے رہتے ہیں‘ بھارت امریکا پر مسلسل دبائو ڈالتا رہتا ہے کہ وہ پاکستان کے بارے میں سخت پالیسی اختیار کیے رکھے تاہم امریکا بھی درمیان میں چلنے کی کوشش کرتا ہے‘ امریکا میں ہر سال بھارت اور امریکا کی ٹو پلس ٹو کانفرنس ہوتی ہے اور ہر کانفرنس کے اختتام پر امریکا اپنے اعلامیے کے ذریعے بھارت کو خوش اور مطمئن کرتا ہے تاہم وہ بھارت کے پاکستان کے خلاف مطالبات تسلیم نہیں کرتا ‘ امریکا نے افغان بحران سے باہر نکلنے کے لیے پاکستان سے براہ راست مدد مانگی کہ اس کی طالبان کے ساتھ بات چیت کرائی جائے‘ امریکا کبھی یہ بات فراموش نہیں کر سکتا ہے کہ پاکستان کی مدد کی وجہ سے ہی طالبان امریکا بات چیت کا عمل ممکن ہوسکا۔ مظہر طفیل نے کہا کہ شہباز شریف نے وزیر اعظم بننے کے بعد سی پیک پر کام کی رفتار تیز کرنے کا عندیہ دیا ہے‘ چینی حکومت نے بھی ان کے عزم کی تعریف کی ہے اور توقع ہے کہ سی پیک کے منصوبوں میں اب تیزی آجائے گی ‘ امریکا کا سی پیک کے بارے میں ایک نکتہ نظر ہے لہٰذا اس لیے اس نے حکومت کو دبائو میں لانے کے لیے اعلامیہ جاری کیا ہے‘ آئی ایس پی آر کے ڈی جی کی پریس کانفرنس کے بعد تحریک انصاف کا بیانیہ اب خود اس کے گلے کا طوق بن گیا ہے‘ شہباز شریف قومی اسمبلی میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے پراپوزیشن کے مشترکہ امیدوار کی حیثیت سے وزیراعظم منتخب ہوئے‘ عدم اعتماد کی تحریک ایک جمہوری اور آئینی عمل ہے‘ عمران حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کا فیصلہ 2سال قبل بھی کیا گیا تھا تاہم اس وقت نواز شریف نے اس تجویزسے اتفاق نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے پی ڈی ایم میں پھوٹ پڑگئی تھی تاہم سابق صدر آصف علی زرداری نے کوشش جاری رکھی اور یہ فیصلہ کرالیا جس کے بعد عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی لہٰذا شہباز شریف حکومت کو امپورٹڈ حکومت کہنا صرف عمران خان کی ذہنی اختراع ہے۔ نواز رضا نے کہا کہ تحریک انصاف کو چاہیے کہ وہ اپنا سیاسی مزاج تبدیل کرے اور جمہوریت سیکھے‘ سیاست میں کبھی بات چیت کے دروازے بند نہیں کیے جاتے مگر یہ تو پہلی حکومت تھی جس نے پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ سے باہر اپوزیشن کو تسلیم ہی نہیں کیا بلکہ بعض ایسے مواقع بھی آئے جب عمران خان کو باقاعدہ یہ سمجھایا اور بتایا بھی گیا کہ ان کو اپوزیشن سے مذاکرات کرنے چاہئیں تب بھی انہوں نے ضد نہیں چھوڑی اور اپوزیشن سے بات چیت نہیں کی‘ اس طرح کا سیاسی مزاج جمہوریت میں نہیں چل سکتا اب وہ شہبازحکومت کو امپورٹڈ کہہ رہے ہیں یہ محض ایک سیاسی بات ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ چودھری اکرام نے کہا کہ ہمارے ملک میں سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام لگاتی رہتی ہیں اور عوام میں جانے کے لیے انہیں کچھ مواد کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا یہ بات سیاسی مواد سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے۔ سمیع ابراہیم نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت ایک سازش کے ذریعے ختم کی گئی ‘عوام کی اکثریت اسی وجہ سے عمران خان کے ساتھ جا کھڑی ہوئی ہے‘ تحریک انصاف کی جانب سے شہباز حکومت کو امپورٹڈ حکومت کہنا درست ہے۔ عبدالمتین اخوندزادہ نے کہا کہ جمہوری معاشروں میں آئین کی بہت اہمیت ہے‘ اگرچہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ متحدہ اپوزیشن نے بھی بعض کام جمہوریت کی روح کے مطابق نہیں کیے تاہم شہباز شریف اس وقت آئینی اور قانونی وزیر اعظم ہیں۔ سجاد سرور نے کہا کہ شہباز شریف حکومت امپورٹڈ حکومت تو نہیں، یہ محض تحریک انصاف کا سیاسی نعرہ ہے‘ اس نے اپنے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے یہ سیاسی نعرہ ایجاد کیا ہے ۔ طاہر آرائیں نے کہا کہ حقائق یہ ہیں کہ نوازشریف ملک کے وزیر اعظم رہے ہیں‘ امریکی دبائو کے باوجود انہوں نے ایٹمی دھماکے کیے‘ شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب رہے ہیں‘ ان کے کام سے پنجاب کے لوگ اچھی طرح واقف ہیں اور تعریف کرتے ہیں‘ تحریک انصاف نے بس سیاسی فائدے کے لیے یہ نعرہ بنایا ہے۔