نئے انتخابات کے لیے بین الجماعتی مذاکرات

526

نبی اکرمؐ نے معاشرے کی کایہ پلٹنے (Transformation) کا انقلابی طریقہ اپنایا، پورے نظام حیات اور نظامِ حکومت کو اللہ تعالیٰ کے ازلی و ابدی احکامات کے مطابق بنایا اور پھر مدینہ منورہ میں ایک عظیم الشان ’’اسلامی جمہوری فلاحی ریاست‘‘ کی بنیاد رکھی جو خلافتِ راشدہ کے سنہرے دور میں پھلی پھولی اور رفتہ رفتہ اس کا دائرہ اثر براعظم ایشیاء، یورپ اور افریقا تک وسیع ہوگیا۔ قیامِ پاکستان کا مقصد بھی نبی اکرمؐ اور خلافت ِ راشدہ کے دور کی اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست کا احیاء تھا جس میں حاکمیت ِ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہو، نبی کریمؐ کی لائی گئی شریعت نافذ ہو اور ہر شہری کو بلا امتیاز بنیادی انسانی، معاشی، سیاسی،حقوق اور آزادیاں حاصل ہوں۔
علامہ محمد اقبال اور قائد ِ اعظم محمد علی جناح کے افکار کے مطابق پاکستان کو ایک اسلامی ریاست بننا تھا مگر سِول اور فوجی حکمرانوں نے اس میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ بنیادی انسانی اور سیاسی حقوق معطل کیے، شہری آزادیاں پامال کی گئیں۔ پہلا اور دوسرا آئین منسوخ کیا گیا۔ سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جبری حکومتیں، صدارتی نظام اور مارشل لا نافذ ہوئے اور ملک دو لخت ہوا۔
1973ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کا متفقہ آئین منظور ہونے کے بعد بھی سول اور فوجی حکمرانوں نے اپنی روش نہ بدلی اور ملک کو اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست بنانے کے اعلیٰ مقاصد کو حاصل کرنے سے گریز کیا۔ 1977ء میں ملک میں تیسرا مارشل لا لگایا گیا اور 1985ء میں مارشل لا کی چھتری تلے غیر جماعتی قومی اسمبلی وجود میں لائی گئی جو زیادہ دیر برداشت نہ ہوئی۔1988ء سے 1999ء تک اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے دو جماعتیں یکے بعد دیگرے دو دو مرتبہ اقتدار میں لائی گئیں۔ 12اکتوبر 1999ء کو چوتھی مرتبہ فوجی جنتا نے شب خون مارا جس نے بالآخر 2002ء میں کنگز پارٹی کی حکومت مسلط کردی۔ 2008ء میں اسٹیبلشمنٹ کی مکمل تائید و نصرت سے پیپلز پارٹی اور 2013ء میں مسلم لیگ ن کی حکومتیں لائی گئیں۔ اس دوران بیرون ملک فنڈنگ اور خفیہ وسائل سے تحریک انصاف اور عمران خان کو مسیحا بنا کر میڈیا پر پیش کیا گیا۔ مدینہ کی اسلامی ریاست، تبدیلی اور نئے پاکستان کے نام پر نوجوانوں اور متوسط طبقہ کو مسحور کیا گیا۔ بالآخر 2018ء میں پوری ریاستی قوت کے ساتھ تحریک انصاف کی
حکومت مسلط کردی گئی جس نے اپنے 44ماہ کے دورِ اقتدار میں اپنی نااہلیت، ناتجربہ کاری، بدعنوانی اور بدترین حکمرانی سے پاکستان کو بدترین اقتصادی، سیاسی اور معاشرتی بحرانوں سے دوچار کردیا۔ حکومت میں بیٹھے بدعنوان عناصر اور مافیاز کے بڑے بڑے کارٹیلز نے اربوں کھربوں روپے کے ڈاکے مارے۔ آٹا، چینی، کھاد، پٹرول اور گیس کے بحرانوں نے عوام کا جینا اجیرن کردیا اور پاکستان کا ہر شہری قرضدار اور مہنگائی کے بوجھ تلے دب گیا۔ قومی معیشت کا سقوط ہوا اور بینک دولت پاکستان (State Bank of Pakistan) عملاً آئی ایم ایف کے شکنجے میں دے دیا گیا۔
اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کی حکومت ختم کر کے میاں شہباز شریف کی قیادت میں اپنی حکومت قائم کرلی جس کے ساتھ ہی تحریک انصاف نے مبینہ امریکا سازش اور دھمکی کو اپنی حکومت کے خاتمے کا سبب گردانے کا ڈراما شروع کر دیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے ریاستی اور سلامتی کے اداروں پر تابڑ توڑ حملے کر کے ملک میں سیاسی تقسیم (Polarization) کو گہرا کردیا۔ اور ایک ایسا سیاسی فرقہ (Cult) بنالیا جو کسی دوسری رائے کا احترام تو کجا سْننے کے لیے بھی تیار نہیں۔ اچھا ہوتا اگر عدالت عظمیٰ عدالتی کمیشن قائم کرکے مبینہ امریکی سازش اور دھمکی کا پردہ چاک کر دیتی مگر تحریک انصاف نے اب اپنی توپوں کا رْخ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف موڑ دیا ہے اور فارن فنڈنگ کسی میں اپنے خلاف ممکنہ فیصلے کے آنے سے پہلے ہی اِسے متنازع قرار دے کر چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا مطالبہ کرکے ایک طرف آئین اور سیاسی وانتخابی نظام کو عملاً چیلنج کرکے فوری انتخابات کا مطالبہ کیا ہے تو دوسری طرف صدرِ پاکستان عارف علوی کے نومنتخب وزیراعظم اور کابینہ سے حلف لینے سے انکار اور نئے گورنر پنجاب کے نو منتخب وزیر اعلیٰ سے حلف لینے سے انکار نے کئی قانونی اور سیاسی پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی غیر منتخب وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے حلف اٹھاتے ہی کاسۂ گدائی اْٹھایا اور آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کے لیے واشنگٹن جاپہنچے جہاں متنازع گورنر اسٹیٹ بینک باقر رضا پہلے سے موجود تھے۔ یاد رہے کہ ماضی قریب میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے تحریک انصاف کو آئی ایم ایف سے قرضہ لنے پر تنقید کا نشانہ بنایا اور باقر رضا کو آئی ایم ایف کا مالی وائسرائے قرار دیا تھا۔
وزیراعظم شہباز شریف اور آصف زرداری نے تحریک عدم اعتماد سے قبل قوم سے وعدہ کیا تھا کہ انتخابی اصلاحات کے فوری بعد نئے انتخابات کروائے جائیں گے مگر اب لگتا ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات اور نئے انتخابات کے ایجنڈے کو پس پشت ڈال کر اتحادیوں میں وزارتیں بانٹ رہے ہیں۔ جبکہ عالمی طاقتوں اور ساہوکاروں کی حمایت اور مدد لینے کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں اور انتخابی اصلاحات اور فوری انتخابات کی وہ بات ہی نہیں کرتے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شہباز شریف حکومت میں آتے ہی الیکشن کمیشن مکمل کرتے، انتخابی اصلاحات کے لیے اقدامات شروع کرتے اور الیکشن شیڈول کا اعلان کرتے لیکن اْنہوں نے ترقیاتی منصوبوں کے افتتاح پر زور دینا شروع کر دیا ہے۔ موجودہ حکومت کا دعویٰ تھا کہ 2018ء میں عوامی مینڈیٹ چوری ہوا تھا۔ اْن ہی کا مطالبہ تھا کہ تازہ انتخابات کروائے جائیں۔ اب جب قومی اسمبلی کے تقریباً آدھے ارکان مستعفی ہو چکے ہیں، کیا اْنہیں اچھا لگتا ہے کہ وہ بلاشرکت ِ غیرے کاروبارِ مملکت چلائیں۔ مقننہ کی گاڑی حکومت اور اپوزیشن کے دو پہیوں پر چلتی ہے۔ پارلیمانی نظام ہٹلر کی پارلیمنٹ اور سودیت یونین کی پولٹ بیورو کی طرز پر نہیں چلایا جاسکتا۔ حقیقی جمہوریت میں قومی اسمبلی میں ہونے والی قانونی سازی جائز (Legitimate) اور متفقہ (Inclusive) ہوتی ہے اس کے لیے حکومت کو ایک طرف قانون سازی سے گریز کرنا ہوگا اور جلد از جلد نئے انتخابات کی طرف بڑھنا ہوگا۔ پولرائزیشن، سیاسی کشمکش اور غیر یقینی صورتحال کے جلد خاتمہ کے لیے شہباز حکومت کو انتخابی اصلاحات کے لیے بین الجماعتی مذاکرات (Intra Parties Dialogue) اور نئے قومی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کرنا چاہیے۔ جتنی جلدی وہ یہ دونوں کام کریں گے اچھا ہوگا ورنہ سیاسی تقسیم انارکی میں تبدیل ہوجائے گی جس کا سارا نقصان ریاست، جمہوریت اور سیاسی جماعتوں کو اْٹھانا پڑے گا۔