نیکیوں کے فروغ اور حصول سعادت کے موسم بہار نے اپنی رخصت کا اعلان کر دیا۔ اس ماہ مبارک کے ان شب و روز کو الوداع کہنے سے قبل ہمیں اس امر کا جائزہ لینا چاہیے کہ اس پُربہار اور حیات بخش موسم کی فیض رسانی سے ہم نے اپنے دامان کو کس حد تک بھرا اور خود کو کتنا فیض یاب کیا۔
میں اپنے اس خطاب میں ان خطوط کی وضاحت کی کوشش کروں گا جو اس جائزے کے سلسلے میں معاون ہو سکتے ہیں۔
قرآن مجید نے اس ماہ مقدس کی مخصوص عبادت یعنی روزوں کا مقصد یہ بتایا ہے کہ:
’’لعلکم تتقون‘‘
تاکہ ہم ان کے ذریعے سے تقویٰ کی راہ پر گامزن ہو سکیں، یعنی روزوں کی اس یک ماہی تربیت کے نتیجے میں ہم میں یہ بات پیدا ہونی چاہیے کہ ہم اپنے ہر قول و فعل سے قبل یہ سوچنے لگیں کہ یہ اللہ کی مرضی کے مطابق ہے یا نہیں اور اس کی فکر کی وجہ سے ہم ان تمام اقوال و افعال سے پرہیز کرنے لگیں جو خدا کو ناپسند ہیں اور یہی تقویٰ کی حقیقت ہے۔
استقبال رمضان کے ایک خطبے میں رسول کریمؐ نے ارشاد فرمایا تھا: ’’لوگو تم پر ایک ایسا مہینہ سائے فگن ہوا ہے جس کی ابتدا رحمت، جس کا وسط مغفرت اور جس کا اختتام نار جہنم سے آزادی کا ضامن ہے‘‘۔
ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اس ایک ماہ کی کارگزاری کا جائزہ اس قولِ رسولؐ کی روشنی میں لیں اور دیکھیں کہ کیا ہم نے اس ماہ کے دوران اپنے شب و روز اس طرح گزارے کہ خدا کی رحمت اور اس کی جانب سے مغفرت ہمارے نصیب میں آئی ہو اور کیا ہم نے اس ایک ماہ کے دوران اپنے خدا کو اس حد تک راضی کر لیا کہ وہ ہمیں جہنم سے جو درحقیقت اس کی ناراض اور اس کے غضب سے عبارت ہے، آزادی کا پروانہ عطا فرما دے۔
حضورؐ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا کہ: وہ شخص تباہ ہو گیا جس نے رمضان کا مہینہ پایا اور مغفرت حاصل نہ کی۔
اور خود سرورکائنات فخر موجوداتؐ کے الفاظ میں ایسے لوگ وہ ہوتے ہیں جنہیں ان کے روزوں سے سوائے فاقے کے اور رات کی عبادت سے سوائے بے خوابی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا کیونکہ انہوں نے اس مبارک مہینے میں بھی بری باتوں اور برے کاموں سے پرہیز نہیں کیا۔
رمضان کے بارے میں حضورؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ: ’’یہ مہینہ صبر اور ہمدردی کا مہینہ ہے‘‘۔
اور صبر کے حقیقی معنی ہیں مواقع و مشکلات اور اسباب کی قلت و عدم فراہمی کے باوجود راہ حق پر قائم رہنا۔ تو ہمیں اس امر کا بھی جائزہ لینا ہوگا کہ ہم میں صبر کی یہ صفت کس حد تک پیدا ہوئی ہے۔ ہم نے اس ماہ میں دوسروں سے ہمدردی کا جذبہ کتنا پیدا کر لیا۔
مبارک ہیں وہ لوگ کہ جو اس پر فیض پربہار موسم میں چلنے والے رحمت کے جھونکوں سے مستفید ہوئے اور جنہوں نے اپنے دامن مراد بھر لیا۔ لیکن ہم میں سے کون ایسا ہے جو اس پر مطمئن ہو کہ اس نے رمضان کا اور اس ماہ مبارک میں کتاب ہدایت نازل کرنے والے مہربان ترین آقا کا حق ادا کر دیا ہو۔ ظاہر ہے یہ دعویٰ ہم نہیں کرسکتے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم خدا کی رحمت سے مایوس ہیں۔ خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور خدا کی رحمت سے گمراہوں کے سوا کون مایوس ہوتا ہے‘‘۔
بلکہ معاملہ اس کے برعکس ہے اور علامہ اقبال کے الفاظ میں تو: آئینہ دل کو بنانے والے احسن الخالقین تو شکستہ آئینہ ہی پیارا لگتا ہے اس لیے اپنی کوتاہیوں کا احساس اور اپنی غفلتوں پر ندامت وہ تحفہ ہے جسے ہم اپنے رحیم و کریم آقا کے دربار میں پیش کر کے اس کی بے پایاں رحم اور اس کے بے نظیر کرم کے مستحق بن سکتے ہیں۔
خود اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ: جو لوگ اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں کا اعتراف کر لیتے ہیں اور احساس ندامت کے ساتھ مغفرت کے طلبگار ہوتے ہیں تو وہ نہ صرف ان کے گناہ اور ان کی لغزشیں معاف فرما دیتا ہے، ان کی غفلتوں اور کوتاہیوں سے درگزر فرماتا ہے بلکہ ان کے اس اعتراف اور طلب مغفرت کے صلے میں ان کے گناہوں کو بھی نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔ قربان جائے ایسے رحیم و کریم آقا کے، اور اس کے آگے ہاتھ پھیلائیے، دعا کیجیے۔
وہ اس مہینے کے دوران ہونے والی مغزشوں کو معاف فرمائے۔ ہم سے اس کے حقوق کی ادائی میں جو کوتاہی ہوتی ہے اسے معاف کرے۔ ان کوتاہیوں کے سبب ہونے والے نقص کو اپنی بے پایاں رحمت سے دور فرما دے اور اس کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم آئندہ رمضان کو بہتر طور پر گزار سکیں۔
لیکن یہ ضرور ی ہے کہ ہم آنے والے رمضان کے استقبال کی تیاری آج ہی سے شروع کر دیں اور اگر جذبہ یہ ہو تو پھر اس گزرنے والے رمضان کو الوداع کرتے وقت بظاہر ہماری آنکھیں… ہوسکتی ہیں لیکن ہم رنجیدہ نہیں ہیں۔ ہم اس رمضان کو الوداع نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ آج ہم آنے والے رمضان کا استقبال کر رہے ہیں۔ خدا ہمیں اس سعادت سے بہرہ ور فرمائے۔ آمین۔