آئی ایم ایف کی غلامی سے آزادی کا سفر

976

میاں شہباز شریف 11 اپریل 2022 کو پاکستان کے تیئسویں وزیراعظم بنے، پاکستان کی معیشت کو بہتر کرنے کے عزم کے ساتھ کام کا آغاز کیا ہے۔ آتے ہی آئی ایم ایف سے 50 کروڑ ڈالر کے پیکیج کے لیے کوشاں ہیں۔ ان سے پہلے عمران خان 17 اگست 2018 کو وزیراعظم بنے تھے جنہوں نے آئی ایم ایف سے قرض نہ لینے کا دعویٰ کیا تھا لیکن اس کے باوجود 4 بلین ڈالر کی بیل آؤٹ پیکیج کی تین قسطیں وصول کیں۔ آج موضوع تنقید کرنا نہیں بلکہ وطن عزیز کی حکومت اور اپوزیشن کو بتانا مقصود ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے نتائج کیا نکلتے ہیں اور کس طرح محنت اور جدوجہد سے آئی ایم ایف کے بغیر غلامی سے آزادی تک کا سفر طے کیا جاسکتا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف ایک عالمی مالیاتی ادارہ ہے جو قرض فراہم کرنے کے ساتھ غریب ممالک کے اوپر کچھ شرائط بھی لگاتا ہے یہ شرائط اکثر اوقات مقروض ملک کے معاشی حالت کو بہتر بنانے کے بجائے اسے بگاڑتی ہیں۔ آئی ایم ایف غریب ممالک کو اپنی شرائط پر قرض دیتا ہے جیسے سود کی شرح میں اضافہ کیا جائے۔ اس سے غربت بڑھ جاتی ہے، ٹیکس بڑھایا جائے، اس سے عوامی سہولتوں میں کمی آتی ہے اور بے روزگاری بڑھتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ قومی اداروں کی نجکاری کی جائے اس سے ملکی اثاثے غیر ملکیوں کے پاس چلے جاتے ہیں۔ بین الاقوامی سرمائے کی ملک میں آمد و رفت پر سے تمام پابندیاں ہٹا لی جائیں، اس سے اسٹاک مارکیٹ میں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ بین الاقوامی بینکوں کو زیادہ سے زیادہ آزادی دی جائے اس سے ملکی صنعتیں مفلوج ہو جاتی ہیں۔ اس کے بعد غریب ممالک کو بس اتنی رقم مزید قرض دی جاتی ہے کہ وہ مشکل سے اپنے موجودہ بین الاقوامی قرضوں کا سود ادا کر سکیں۔ ان اصلاحات کے نتیجے میں ملکی دولت آئی ایم ایف کے پاس چلی جاتی ہے، پاکستان نے ایوب خان کے دور سے لے کر آج تک آئی ایف سے جو قرض لیے اس کی تاریخ جاننا ضروری ہے تاکہ ہم آئی ایم ایف کے بغیر آزادی کے ساتھ معیشت کو چلانے کا راستہ تجویز کریں ورنہ ملک دیوالیہ ہو جائے گا جو عملاً ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے ہم تذکرہ کریں آئی ایم ایف کی غلامی سے آزادی کیسے حاصل کی جائے قارئین کو آج تک لیے گئے قرضوں کی تاریخ کا جاننا ضروری ہے۔ جو پاکستان کے حکمرانوں نے مختلف ادوار میں لیے۔
شہباز شریف کی حکومت کے آغاز ہی میں 50 کروڑ ڈالر جو ایکسٹینڈڈ پیکیج آئی ایم ایف سے منظوری کے مراحل میں ہے
عمران خان کے دورے حکومت میں سال 2019 میں 6 بلین ڈالر کا بیل آؤٹ پیکیج آئی ایم ایف نے منظور کیا جس میں 4 بلین ڈالر کی تین قسطیں پاکستان کو ادا کی گئیں۔ نواز شریف کے دوسرے دور ِاقتدار میں 20 اکتوبر 1997 کو آئی ایم ایف سے ایکسٹنڈڈ فنڈ کی مد میں 1.13 ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا۔ مسلم لیگ ن کے تیسرے دورِ اقتدار میں 4 ستمبر 2014 کو ایکسٹنڈڈ فنڈ کی مد میں 4.3 ملین ڈالر قرضہ حاصل کیا گیا۔ جو تمام کا تمام استعمال کیا گیا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں 11 اگست 1973 کو 75ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا۔ 11 نومبر 1974 کو 75 ملین ڈالر کا ایک اور قرضہ حاصل کیا گیا۔ اسی دور حکومت میں 9 مارچ 1977 کو 80 ملین ڈالر کا ایک اور قرضہ حاصل کیا گیا تھا۔ پیپلز پارٹی کے دوسرے دور ِ اقتدار میں جب ملک پر بے نظیر بھٹو حکمران تھیں، کو اسٹینڈ بائی کی مد میں 28 دسمبر 1988 کو 273.1 ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دورِ اقتدار میں 22 فروری 1994 کو آئی ایم ایف سے ایکسٹنڈڈ فنڈ کی مد میں 985.7 ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا گیا۔ پرویز مشرف کی حکومت کے بعد جب پیپلز پارٹی ایک بار پھر اقتدار میں آئی، آصف علی زرداری کے دور حکومت میں 24 نومبر 2008 کو آئی ایم ایف نے ایک بار پھر 7.2 بلین ڈالر قرض کی صورت میں دیے۔ جنرل ایوب خان کے دور میں پہلی بار 16 مارچ 1965 کو آئی ایم ایف سے اسٹینڈ بائی لون کا معاہدہ کیا گیا، اس قرض کی رقم 37.5 ملین امریکی ڈالر تھی۔ جنرل ایوب ہی کے دور ِ حکومت میں 17 اکتوبر 1968 میں 75 ملین ڈالر کا قرضے کیے گئے۔ جنرل ضیا الحق کے دور اقتدار میں پاکستان نے 24 نومبر 1980 کو ایکسٹنڈ سپورٹ فیسیلٹی کے تحت1.2 بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا تھا۔ 2 دسمبر 1981 کو پاکستان ایک بار پھر آئی ایم ایف میں گیا اور 919 ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں 29 نومبر 2000 کو پاکستان نے اسٹینڈ بائی کی مد میں 465 ملین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا۔ اگلے ہی سال یعنی 6 دسمبر 2001 میں ایکسٹنڈڈ کریڈٹ کے تحت پاکستان نے ایک بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کیا۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا میں وہی قوم ترقی کی منازل طے کرتی ہے جن کی معیشت مضبوط اور عوام بھی ہر لحاظ سے طاقتور و خوشحال ہوں، ایسے ممالک دنیا کو اپنے طریقے سے چلاتے ہیں۔ ہم شروع سے ہی غلامی کا شکار ہو گئے۔ ہمارے سیاستدان سرمایہ دارانہ نظام کے جال میں پھنس گئے۔ آئی ایم ایف بھی ایک سرمایہ دارانہ نظام کا شاخسانہ ہے ان کا اپنا ہی طریقہ کار ہے یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں کس ملک کی معیشت کمزور ہے پھر اسے قرض دے کر اپنا غلام بنا لیتے ہیں اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ ملک مکمل طور پر ان کے جال میں پھنس جاتا ہے۔ اصل رقم پر سود دینا بھی ان کے لیے وبال جان بن جاتا ہے۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال بھی ایسی ہی ہے پاکستان کو آئی ایم ایف نے قرضہ دے کر اس قدر مفلوج کر دیا کہ اب اس کی معیشت بغیر قرضے کے چلنے سے قاصر ہے۔ اب ہمیں قرض پر سود کی رقم ادا کرنے کے لیے بھی مزید قرض لینا پڑ رہا ہے اور آئی ایم ایف اپنی کڑی شرائط پر ہمیں قرض دے رہا ہے۔ عوام مفلسی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ وہ لوگ جو تین وقت کھانا کھاتے تھے ایک وقت کی سوکھی روٹی پر آ گئے ہیں۔ پاکستان میں 7 لاکھ 60 ہزار لوگ غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے۔ 2کروڑ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ 75 لاکھ نوجوان بیروزگار ہیں۔ 13فی صد کے قریب مہنگائی ہے۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا چاہیے، اسے عالمی مالیاتی ادارے کے بغیر جینا سیکھنا ہوگا۔ ماہر معاشیات نے کرنٹ اکائونٹ خسارے کی فنانسنگ کے لیے فنڈز کا انتظام کو ایک معاملہ قرار دیا اور خسارے کو کم کرنے کے لیے پرتعیش اشیاء کی درآمد پر پابندی عائد کرنا تجویز کیا ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان کو قرض دینے کے لیے ہر صورت اپنی شرائط منواناچاہتا ہے۔ آئی ایم ایف کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ پاکستان میں بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کر دیا جائے کہ اس کی زراعت اور معیشت تباہ ہو جائے اور توانائی کے شعبہ میں خود کفیل نہ ہو سکے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت عالمی مالیاتی اداروں پر صہیونی قابض ہیں جو کسی صورت بھی پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا ہوتے نہیں دیکھ سکتے اور ہمیں خود انحصاری کی منزل سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔
(جاری ہے)