شہباز حکومت میعاد پوری نہیں کرسکے گی،جلد انتخابات کی طرف بڑھنا ہوگا

402

لاہور (رپورٹ: حامد ریاض ڈوگر) سیاسی وسماجی رہنمائوں اور اہل علم و دانش نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کے اپنی معیاد پوری کرنے کا امکان بہت کم ہے اور ملک کو جلد نئے عام انتخابات کی سمت بڑھنا پڑے گا۔ ’’جسارت‘‘ نے جماعت اسلامی صوبہ وسطی پنجاب کے امیر مولانا محمد جاوید قصوری، دنیا گروپ آف نیوز پیپرز کے گروپ ایڈیٹر سلمان غنی اور ممتاز دانشور پروفیسر ڈاکٹر اخترعزمی سے استفسار کیا کہ ’’کیا شہباز شریف کی حکومت اپنی معیاد پوری کر لے گی؟‘‘ تو مولانا محمد جاوید قصوری نے رائے دی کہ ایک ایسی حکومت جس کی آدھی سے زائد کابینہ کرپشن کے مقدمات میں مطلوب ہے، خود وزیر اعظم اور اکثر وزرا ضمانت پر ہیں، یہ بات عالمی سطح پر ملک کے لیے بدنامی کا باعث ہے پھر پورا سیٹ اپ ایسے مختلف الخیال لوگوں پر مشتمل ہے جن کا نظریہ، منشور، منزل، کچھ بھی ایک نہیں، سب محض ایک دبائو پر جمع ہیں اور آغاز ہی میں اختلافات شروع ہو گئے ہیں، ان حالات میں موجودہ حکومت اپنی بقایا مدت پوری کرتی نظر نہیں آتی بلکہ تیزی سے قبل از وقت انتخابات کی جانب بڑھ رہی ہے، ملک کو درپیش سیاسی و معاشی بحران سے نکالنے کا راستہ بھی یہی ہے کہ قوم سے رجوع کیا جائے، حکمران طویل المیعاد منصوبوں کے بجائے انتخابی اصلاحات پر توجہ دیں تاکہ آئندہ انتخابات کو قوم کا اعتماد حاصل ہو سکے۔ دنیا گروپ آف نیوز پیپرز کے گروپ ایڈیٹر سلمان غنی نے ’’جسارت‘‘ کے سوال پر کہا کہ میرا یہ خیال نہیں کہ شہباز شریف حکومت اپنی معیاد پوری کر سکے گی کیونکہ جن گھمبیر حالات میں یہ حکومت وجود میں آئی ہے، وہ وقت گزرنے کے ساتھ سنگین تر ہوتے جائیں گے، اس کے علاوہ مخلوط حکومت کے مسائل بھی ہیں12 جماعتوں کا یہ اتحاد ساز گار حالات و واقعات سے دو چار نہیں، حزب اختلاف کا دبائو بھی کچھ کم نہیں اس لیے اسمبلیاں مدت پوری کرتی دکھائی نہیں دیتیں، اس کے علاوہ مسلم لیگ (ن) اور حزب اختلاف کی تحریک انصاف میں اس امر پر اتفاق ہے کہ دونوں قبل از وقت انتخابات کی طرف جانا چاہتی ہیں ان حالات میں حکومت کے مدت پوری کرنے کی توقع نہیں کی جا سکتی، پروفیسر ڈاکٹر اختر عزمی نے ’’جسارت‘‘ کے استفسار پر رائے دی کہ موجودہ حکومت کا میعاد پوری کرنا خاصا مشکل ہے البتہ جب تک اس کو وجود میں لانے والی قوتوں کی پشت پناہی حاصل رہے گی یہ اپنا کام جاری رکھے گی دیکھنا یہ ہے کہ اس حکومت کی ضرورت کب تک محسوس کی جاتی ہے اور کب یہ ادراک ہوتا ہے کہ اب مزید اس کی ضرورت باقی نہیں رہی، یوں بھی خود حکمران نواز لیگ، اس کی اتحادی مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علما اسلام اور ان کے بعض دوسرے ساتھی بھی از سر نو انتخابات کے خواہاں ہیں سابق وزیر اعظم عمران خان بھی نئے انتخابات پر زور دے رہے ہیںحکومت خود بھی بدنامی سے بچنے کے لیے انتخابات کو ترجیح دے گی تاہم اس کی کوشش ہو گی کہ اپنا مختصر اور ضروری ایجنڈا انتخابات کی طرف جانے سے قبل مکمل کر لے تاکہ وقت آنے پر اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔