پھول جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئے

569

صوبہ سندھ کے اقتدار پر گزشتہ تقریباً 16 برس سے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لیکن اس سارے عرصے میں پی پی کی حکومت نے اہل صوبہ کو کوئی ریلیف مہیا کرنے کے بجائے ان کے مسائل اور مصائب میں اضافہ ہی کیا ہے، اور اس کی وجہ ہے حکمران جماعت کی انتہائی درجہ کی نااہلی، بے حسی، بدحکومتی اور بدعنوانی۔ لگ بھگ ہر روز ہی سندھ میں کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ، حادثہ یا سانحہ ضرور ہی رونما ہوتا ہے جو پی پی پی کی حکومت کی قلعی کھول کر حکمرانوں کی نالائقی اور بری حکمرانی کو بے نقاب کردیتا ہے، لیکن سندھ پر حکومت کرنے والے پی پی پی کے ذمے داران کی بے حسی اور ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ وہ اس کا نوٹس لینے یا اصطلاح احوال کے لیے بالکل بھی تیار و آمادہ دکھائی نہیں دیتے۔ جس کا نتیجہ اب یہ نکلا ہے کہ صوبہ سندھ میں ہر سرکاری محکمہ میں شدید زوال اور انحطاط در آیا ہے۔
18 اپریل کو بھی ضلع دادو کی تحصیل میہڑ کے علاقہ فرید آباد کے گوٹھ فیض محمد چانڈیو میں بھی ایک ایسا سانحہ رونما ہوا ہے جس کی وجہ سے جہاں ایک طرف اہل سندھ غم و الم میں ڈوب گئے ہیں تو دوسری طرف پی پی حکومت کی نااہلی اور بدانتظامی پر بھی مزید صاد ہوگیا ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ مذکورہ گوٹھ میں 18 اپریل کی شب کو تمام اہل دیہات سوئے ہوئے تھے، نصف شب کے قریب ایک گھر میں چولہے سے اُٹھنے والی چنگاری سے آگ لگ گئی۔ کیوں کہ اس شب ہوا بھی قدرے تیز چل رہی تھی اس لیے دیکھتے ہی دیکھتے یہ آگ پھیلتی چلی گئی اور جب تک گوٹھ کے باشندوں کو ہوش آتا اور وہ سنبھل پاتے سارا گوٹھ ہی آگ کی لپیٹ میں آچکا تھا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق آتش زدگی کے اس ہولناک سانحہ میں تین معصوم سگے بھائیوں سمیت 9 بچے، 200 گھر، سیکڑوں مویشی، موٹر سائیکلیں، ٹریکٹر ٹرالیاں اور گھروں میں رکھا گیا اناج اور قیمتی سامان خاکستر ہو کر رہ گیا۔ متعدد افراد آگ سے جھلس کر شدید زخمی بھی ہوئے۔ اس موقع پر اہل علاقہ نے اپنے طور پر آگ بجھانے کی جتنی بھی کوشش کیں وہ ناکامی سے دوچار ہوئیں اور سارا گوٹھ ہی جل کر خاکستر ہوگیا۔ اس دوران مقامی افراد نے میونسپل کمیٹی خیرپور ناتھن شاہ اور میہڑ کے ذمے داران کو بھی فوری اطلاع دی لیکن انہوں نے متاثرہ گوٹھ کو اپنی حدود میں واقع قرار نہ دیتے ہوئے آگ بجھانے کے لیے فائر بریگیڈ کی گاڑیاں روانہ نہیں کیں۔ ضلع دادو کے ڈپٹی کمشنر سے بھی رابطہ کیا گیا لیکن اس وقت صاحب بہادر آرام کرنے میں مصروف تھے۔ لہٰذا شنوائی ممکن نہ ہوسکی۔ کئی گھنٹے گزرنے کے بعد جب سب کچھ جل کر راکھ ہوچکا تھا ایک بوسیدہ اور دھکا اسٹارٹ فائر بریگیڈ کی گاڑی وارہ ضلع قمبر شہداد کوٹ سے جائے وقوع پر پہنچی، جب کہ ضلع دادو کی میونسپل کمیٹی جس کا کروڑوں روپے کا بجٹ ہے وہاں سے کوئی مدد نہیں آئی کیوں کہ اطلاعات کے مطابق آٹھ میں سے 6 فائر بریگیڈ کی گاڑیاں خراب و خستہ اور ازکار رفتہ حالت میں اینٹوں پر کھڑی ہوئی ہیں اور بقیہ 2 پانی کا چھڑکائو کرنے یا افسران کے گھروں میں پانی بھرنے کے کام پر مامور کردی گئی ہیں۔
اس سانحہ میں جو مالی اتلاف ہوا ہے وہ اپنی جگہ پر لیکن 9 معصوم بچے جس طرح سے آگ میں جل کر خاکستر ہوئے ہیں اس نے تمام اہل سندھ پر ایک غم اور سوگ کی کیفیت طاری کردی ہے۔ سندھی نیوز چینلوں پر دکھائی گئی اس المناک سانحے کی رپورٹ نے تو سب کے دلوں کو دہلا کر رکھ دیا ہے جس میں ایک رنج و غم میں ڈوبی ہوئی سوگوار ماں آگ میں جل کر کوئلہ ہوجانے والے پنے کم سن بچے کو بار بار چومتے ہوئے دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے اور جلنے والے بچوں کے دوسرے والدین کو سکتے کی کیفیت میں دکھایا گیا ہے۔ اتنا بڑا سانحہ ہوگیا۔ معصوم پھولوں کی طرح بچے جل کر بھسم ہوگئے لیکن حکومت سندھ کے ذمے داران، دادو کی ضلعی انتظامیہ اور منتخب عوامی نمائندوں ایم این اے رفیق جمالی، ایم پی ایز سمیت کسی کے کانوں پر کوئی جوں تک نہ رینگ سکی۔ میڈیا پر بار بار رپورٹیں نشر ہونے کے باوجود یہ بے حسی اور حد درجہ سنگ دلی قابل غور ہے۔ بالآخر عوامی ردعمل اور سندھی ٹی وی چینلوں کی جانب سے سخت تنقید کے بعد 24 گھنٹوں کے بعد انتظامیہ کا ضمیر بھی بیدار ہوا اور اسسٹنٹ کمشنر میہڑ فہیم لاکھو مقامی پی پی رہنمائوں کو ساتھ لیے جائے حادثہ پر پہنچے۔ جنہیں دیکھ کر متاثرہ اہل علاقہ نے سخت احتجاج کیا۔ بعدازاں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی گوٹھ آئے اور اس سانحے کے حوالے سے حکومتی غفلت کا برملا اعتراف کرتے ہوئے آگ میں جلنے والے افراد کے لواحقین کے لیے فی کس 5-5 لاکھ روپے اور فی کس زخمی 2 لاکھ روپے امداد سمیت تمام جل جانے والے گھر سرکاری خرچہ پر تعمیر کرانے کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعظم میاں شہباز شریف نے بھی متاثرین کے لیے ایک کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعلیٰ کی جانب سے فائربریگیڈ دیر سے پہنچنے کا اعتراف کرنے کے باوجود کسی ذمے دار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
متاثرین کی امداد اور بحالی کے لیے سرکاری اداروں کے مقابلے میں الخدمت فائونڈیشن، ایدھی فائونڈیشن، پاک آرمی اور رینجرز نے کہیں زیادہ عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے جسے عوامی سطح پر بھی سراہا جارہا ہے۔ اس سانحے کے موقع پر ضلعی اور مقامی انتظامیہ سمیت منتخب عوامی نمائندوں، نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی اور پراونشل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا کوئی بھی مثبت کردار کہیں بھی دکھائی نہیں دیا جو بہرحال ایک لائق مذمت اور قابل افسوس ہے۔ اس سانحے کے بارے میں سوچ کر اور حکومتی بے حسی کو دیکھتے ہوئے انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ متاثرین آتشزدگی سانحہ کے بعد تین روز تک بے یارو مددگار کھلے آسمان تلے پڑے رہے لیکن حکومت سندھ اور دادو کی ضلعی انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہی۔ اُلٹا بحریہ فائونڈیشن کی جانب سے بھیجا گیا سامان دادو پولیس کے اہلکار زبردستی اپنے گھروں کو لے گئے جنہیں اب گرفتار کرلیا گیا ہے۔ سندھ میں فوری ہنگامی امداد کے لیے ایک ریسکیو ادارے کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن یہ کام کون کرے گا؟ صوبہ سندھ میں حکومت ہے کہاں کہ جس سے امید کی جائے۔