اسلامی معاشرے کے قیام تک رمضان کے اثرات سال بھر نہیں رہ سکتے

855

کراچی (رپورٹ: محمد علی فاروق) اسلامی معاشرے کے قیام تک رمضان کے اثرات سال بھر نہیں رہ سکتے‘ عوام کی اکثریت رمضان کو روایتی تہوار سمجھتی ہے‘ عقیدہ توحید کمزور اور آخرت کی جواب دہی کا احساس ختم ہوچکا‘ ایمان ہمارے دلوں میں داخل نہیں ہوا‘ اللہ تعالیٰ نے رمضان کے روزوں کو فرض کرنے کی حکمت تقویٰ بتائی ہے۔ ان خیالات کا اظہار فروغ اسلام فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر مولانا عطا اللہ عبدالرؤف، رئیسہ کلیہ معارف اسلامی پروفیسر ڈاکٹر شہناز غازی، یو کے اسلامک مشن کے سابق صدر ضیا الحق اور اتحاد بین العالمین کونسل پاکستان ،کے چیئرمین سیاسی امور غربا الحدیث علامہ ڈاکٹر عامر عبداللہ محمدی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ ’’مسلمانوں پر رمضان المبارک کے اثرات بقیہ 11 مہینے میں نظر کیوں نہیں آتے؟‘‘ مولانا عطا اللہ عبدالرؤف نے کہا کہ رمضان المبارک کے بعد مسلمانوں کو کیسی زندگی گزارنی چاہیے اس کا تعین بھی قرآن نے کر دیا ہے‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ تمہیں موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم اللہ تعالیٰ کے فرما بر دار ہو، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تقویٰ کی افزائش کا مہینہ رمضان المبارک ہے اور تقویٰ پر عمل پورا سال کرنا ہے‘ اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کے مہینے کے بعد11 مہینے مسلم معاشرے پر تقویٰ کی چھاپ نظر کیوں نہیں آتی‘ اس کے بہت سے اسباب ہیں‘ سب سے پہلے تو عقیدہ توحید کی کمزوری، آخرت کی جواب دہی کا احساس نہ ہونا، دنیا پرستی کا غالب آنا، دنیا کی زندگی کو ترجیح د ینا، علم کا فقدان، اس کے ساتھ ساتھ قوت نافذہ یعنی وہ قوت یا اتھارٹی جہاں سے کام کے احکامات جاری ہوتے ہیں‘ اس کا کمزور پڑ جانا ہے ‘ یہی وجہ ہے کہ ہر سال رمضان میں نماز پڑھنے والوں کی تعداد انتہائی قلیل ہوتی جا رہی ہے‘ اس لیے احترام رمضان آرڈیننس جاری کیا گیا‘ جب تک قوت نافذہ میں اسلام نہیںآئے گا‘ معاشرے میں اسلام تقویت نہیں پا سکتا‘ اسلام غلبہ چاہتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فر مایا کہ’’ اللہ تعالیٰ نے ہی اپنے رسولؐکو قرآن یعنی دین حق، سچا دین دے کر بھیجا تاکہ اس کو غالب کر دے‘ تمام ادیان باطلہ پر اگرچہ یہ بات مشرکین کو کتنی ہی ناگوار کیو ں نہ گزرے‘‘۔ جب تک مسلم معاشرہ قائم نہیں ہوگا اور مسلم سوسائٹی اسلام کے رنگ میں رنگ نہیں جاتی اس وقت تک رمضان المبارک کے بعد11 مہینوں میں جو اثرات مطلوب ہیں وہ اس طریقے سے ظاہر نہیں ہو سکتے ۔ ڈاکٹر شہناز غازی نے کہا کہ جیسے ہی رمضان المبارک کے بابرکت ماحول سے انسان باہر آتا ہے تو دھیرے دھیرے اپنی پرانی روش اختیار کر لیتا ہے‘ اب ایسا بھی نہیںکہ سبھی افراد پر اس کا اطلاق ہوتا ہے لیکن چونکہ ہم یہاں انفرادیت نہیں اجتماعیت کی بات کر رہے ہیں ‘ بحیثیت قوم ہمارا مزاج یہی ہے کہ ایمان ہمارے دلوں میں داخل نہیں ہوا لہٰذاجب بھی ایمان دلوں میں داخل ہوگا تو اس کے اثرات رمضان المبارک کے مہینے کے علاوہ 11 مہینے میں بھی نظر آئیں گے اور جن لوگوں کے دلوں میں ایمان داخل ہو چکا ہے تو چاہے‘ انفرادی ہو یا اجتماعیت میں‘ اس کے اثرات فرد یا جماعت پر پورا سال نظر آتے ہیں۔ ضیا الحق نے کہا کہ رمضان المبارک کا مہینہ جب سایہ فگن ہوتا ہے تو مسلمانوں میں عبادت کے لیے ایک تازہ ولولہ پیدا ہوجاتا ہے مگر جیسے ہی رمضان کا مہینہ ختم ہوتا ہے‘ مسجدیں ویران ہوجاتی ہیں‘ اب پرانے نمازیو ں کی وہی ایک2 صف باقی رہ جاتی ہیں حالانکہ روز ے اس لیے فرض کیے گئے ہیں تاکہ اس ماہ مبارک میں مسلمانوں کی تربیت کی جا سکے اور رمضان کے بعد مسلمانوں کے کردار سے چلتا پھرتا قرآن نظر آئے اور مسلمانوں کی زندگی قرآنی تعلیمات کے سانچے میں اس طرح ڈھل جائے کہ ان کو دیکھ کر غیر مسلم اسلام کو سمجھ سکیں‘ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے رمضان المبارک کے روزوں کو فرض کرنے کی حکمت تقویٰ کے ساتھ مشروط کی ہے‘ اللہ جل شانہ کا فر مان ہے‘اے لوگوں جو ایمان لائے ہو‘ تم پر روزے فرض کیے گئے ہیںجس طرح تم سے پہلے کی امتوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو سکے ۔ یعنی انسان کے قلب و دماغ ، زاویہ نظر اور اخلاق وکردار میں ایک انقلاب برپا ہوجائے اور رمضان کے بعد وہ ایک نئی صالح زندگی کا حامل فرد بن جائے۔ امام ابن تیمہ فرماتے ہیں اگر دیکھنا ہوکہ کسی کی رمضان کی عبادت قبول ہوئی ہے یا نہیں تو رمضان کے بعد اس کے اعمال دیکھو‘ اگر بعد رمضان بھی نیک اعمال پر اس کی استقامت اسی طرح باقی ہے‘ جیسے ماہ رمضان میں تھی تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی رمضان میں کی جانے والی عبادات کو قبول فرما لیا ہے۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ ’’کتنے ہی ایسے روزہ دار ہیں جن کے نصیب میں سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ نہیں ہے، کتنے ہی ایسے رات میں قیام کرنے والے ہیں جن کے نصیب میں سوائے رات جاگنے کے کچھ نہیں ہے‘‘۔ رمضان کو ہمارے معاشرے نے ایک رسم کے طور پر لے لیا ہے‘ اس موقع کو خدا سے معافی تلافی کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے‘ خیال کیا جاتا ہے کہ باقی سال گناہ کرنے کا لائسنس مل گیا ہے۔ ڈاکٹر عامر عبداللہ نے کہا کہ مجھے یہ لگتا ہے کہ مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ رمضان المبارک عبادت برائے عبادت ہے حالانکہ قرآن کریم و حدیث نبوی ؐ اور آثار صحابہ و سلف صالحین کے اعمال اس بات کے شاہد ہیں کہ رمضان المبارک دراصل سال کے با قی 11 مہینوں کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرادری اور حضور اکرمؐ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے گزارنے کی تربیت کا نام ہے‘ آغاز میں ہی رب تعالیٰ نے جب اس کی فرضیت کا حکم نازل فرمایا تو یہ بات واضح کر دی کہ اس کا مقصد محض بھوکا اور پیاسا رکھنا نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ سے تمہارے اندر تقویٰ(خوف خدا) پرہیز گاری پیدا کرنا ہے‘ گو یا کہ رمضان المبارک میں مخصوص اوقات کے دوران اللہ تعالیٰ نے حلال چیزوں پر پابندی لگا کر ان سے پرہیز کی صلاحیت اور قوت عطا فر مائی تاکہ انسان کو سال کے باقی 11 مہینے میں حرام سے بچنے میں آسانی ہو‘ اسی تقویٰ (خوف خدا) سے انسان کے اندر فرقان پیدا ہوتا ہے یعنی حق اور باطل کی تمیز پیدا ہوجاتی ہے ‘ برائی اور فسق و فجور سے قدرتی طور پر نفرت پیدا ہو جاتی ہے‘ رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتیں یعنی شب قدر میں عبادت کے بجائے لو گ فضول کاموں میں گزار دیتے ہیں اور جو لوگ رمضان میںعبادت کرتے تھے ان کے لیے رمضان چلا گیا جبکہ مسلمان رمضان کی عبادت نہیں کرتا بلکہ مسلمان رحمان کی عبادت کرتا ہے اور رحمان تو رمضان یا غیر رمضان ہر مہینے میں صبح و شام اپنے بندوں کے لیے رحمت، برکت اور بخشش عطا کرنے کے لیے موجود ہوتا ہے۔