ففتھ جنریشن وار

654

دنیا تیسری عالمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ روس، یوکرائن امریکا مثلث میں بتاؤ تم کس کا ساتھ دوگے؟ جیسے سوال کی بازگشت کے ساتھ ہی یوکرینی لاشیں فلسطین لاشوں سے جادو سے بدل جاتی ہیں کبھی امریکا کا موقف پاکستان میں اہم ترین ضرورت، ایمل کانسی، ریمنڈیوس کی امریکی حوالگی کا معاملہ تو کبھی عافیہ صدیقی کا مظلوم کردار، اور کبھی آسیہ مسیح، توہین رسالت کا ایشو اور اس کے باوجود اس کی رہائی اور کینیڈا روانگی، دنیا میں بیک جنبش ِ ’’انگشت‘‘ خبروں کا حق وباطل سے ماوراء محض خبر اور اس پر بھی اک مخصوص لابی کی جانب سے گردش کی جانے والی خبریں کہ جیسے اک چھوٹے سے گاؤں میں چودھری صاحب کے ایما پر ڈھول کی تھاپ پر گلی گلی، کوچہ کوچہ، محو رقص خبریں ’’چودھری صاحب نے فیکے کمہیار سے ہر شخص کو حقہ پانی بند کرنے کا حکم دیا ہے‘‘۔ ’’چودھری کرم دین ولد فضل دین کے بڑے بیٹے ولایت سے ڈاکٹر بن کر آ گئے‘‘۔ بھیگے وال کے پنڈ کی کونے والی زمین ملک اللہ داد خان صاحب کی ملکیت ہے اس کے حوالے سے سب جان لیں۔
اسی طرح دنیا کے اس گاؤں کی خبریں گلوبل ولیج کے چودھریوں اور ملکوں کے ایما پر بہت نامحسوس طریقے سے پھیلا کر ذہن سازی کی جارہی ہے اور یہ سب کچھ باقاعدہ ایک انڈسٹری بن چکا ہے جسے آج سوشل میڈیا کے نام سے ہم سب جانتے ہیں، اس سے پہلے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا کامیاب تجربہ اس دنیا میں نیرنگی سیاست دوراں کا باعث بن چکا ہے۔ ہر نئے تجربے کی طرح سوشل میڈیا کے تجربات سے بھی اہل علم و شعور کو پیچھے رہنے کی ہدایت دی گئی بلکہ اس میڈیا کی عریانیت اور فحش نگاری نے شرفا کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا اور پھر یہاں سے وہ بھیانک کھیل اس دنیا کے نووارد طبقے یعنی نوجوان کے ساتھ کھیلا گیا کہ جہاں علم و ادب اور تعلیم و تعلّم کے بیچ اک نامحسوس خلا پیدا کر دیا گیا اور گلوبل ولیج کے بچے، نوجوان ہاتھ سے نکل کر دجالی نظام کا حصہ بنتے چلے گئے پر تعیش طرزِ زندگی کی چاہت، من مرضی پر عملدرآمد کی چاہت، اجسام پر ملکیت کے دعوے، کاموں کی تقسیم کے حوالے سے نئی جہتیں، لذت کام ودہن اول اور اخلاقی اور سماجی معیارات کی ثانوی حیثیت، کھالے پی لے جی لے کے نعروں سے بسر ہوتی زندگی اک عجیب ہڑبونگ سی ہر طرف، کچھ عرصہ تو یہ معمول ایسے ہی چلنے دیے گئے مگر آخر کار اس میں اہل علم و شعور طبقے کو بھی اپنی انٹری دینی پڑی اور اینٹ کا جواب پتھر سے عریاں تہذیب کے تن پر لباس سجانے کے لیے اس طبقے نے دخل در معقولات شروع کر دیں۔
ایسے میں اس باطل کے مقابلے میں حق پوری قوت سے اسباب لے کر مقابل آیا تو اس حق کو ہٹانے اور مٹانے کے لیے باطل پوری طرح سربکف ہو گیا۔ جب حق کوئی ’’خبر‘‘ بھی لگا لے ’’خبر‘‘ کہ باطل کو اڑنا نہیں آتا تو پورے باطل پرست پنڈ میں تھر تھلی مچ جاتی ہے اور سب یک زبان ہو کر بیچارے خبر والے کو پڑ جاتے ہیں کہ آخر کار اسے ماننا پڑتا ہے کہ ہاں باطل کے پر ہیں وہ اڑتا بھی ہے۔
اس دجالی دور میں پاکستانی معاشرے میں جو بڑے چھوٹے کا لحاظ تھا وہ شیطان کی نذر ہو گیا ہے سوشل میڈیا پر ہر غیر باطل کی عزت کو کس طرح تار تار اور پامال کیا گیا کہ لوگ ان لوگوں کو دجالی فتنہ سمجھ کر منہ لگانے سے ڈرتے تھے ہر کوئی عزت سنبھال کر سچ جھوٹ میں پڑے بغیر کہہ دیتا اچھا اچھا بیٹا چلو بحث نہ کرو مگر شیطان کسی سونامی طوفان کی طرح اپنے لیڈر کے کہنے پر اوئے ابے تبے کہتے ہوئے اس لسانی جماعت کی یاد تازہ کرا گئے کہ جسے دفن ہوئے ابھی کچھہ عرصہ ہوا تھا مگر اس لسانی جماعت کے لوگ بھی گولی سے ایک ہی بار ماردیا کرتے تھے مگر شیطان کلاشنکوف زبان میں رکھ کر زہریلا بارود دل و دماغ میں رکھ کر قطع تعلق نام بگاڑنا اور کردار کشی کے جوہر سے آراستہ تھے کہ ان کے شرور سے بچنا محال تھا۔
ہمیں یاد ہے ہماری قرآن کلاسوں، ہمارے بزرگ اور معزز ترین امراء اور خواتین کی، عہدیداران کی ہمارے سچے کھرے نظام کی کس طرح سے بھد اڑائی گئی کہ ہمارے جماعت اور جمعیت کے بچے اپنی شرافت اور تہذیب کے رکھ رکھاؤ میں اپنے بہت سے رفیق کھو بیٹھے صرف اس ضمن میں کہ آخر آپ لوگ ان جھوٹوں کو جواب کیوں نہیں دیتے بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ کیوں سچائی پر حق پر ہونے کے باوجود آپ ان کا مقابلہ نہیں کرتے کیوں منع کیا کرتے ہیں کہ ان کے منہ نہ لگا جائے، یہ سب سنتے ہوئے الیکشن میں ہم نے، جی ہاں ہم نظریہ اسلام سے وابستہ افراد نے اپنا نوجوان اپنا اثاثہ کھو دیا ہم نظریہ اخلاق لیکر بیٹھ رہے اور ہمارے گھروں میں نظریہ اسلام کا جنازہ نکالنے کا اہتمام شروع ہو گیا سوشل میڈیا پر وائرل جھوٹ، بہتان، مکر وفریب بے ایمانی، تذلیل، تضحیک ان سب کا دور دورہ ہو گیا بالکل اسی طرح جیسے لسانیت اپنی کلاشنکوف سے صالح اجتماعیت کے نہتے بچوں کو نشانہ بنانے لگی اور سب تماشائی تھے ماؤں کے لعل کٹے لوگ چپ رہے پھر اس صالح اجتماعیت نے بھی اپنے دفاع کے لیے بندوق تو نہیں لاٹھیاں اور ڈنڈے اٹھا لیے تو اجتماعیت کے داعی ’’غنڈے‘‘ کہلائے بالکل اسی طرح ہم نے سوشل میڈیا پر ان ہی کی اسٹرٹیجی انہی پر آزمانے کا فیصلہ کیا ہم نے ان کی ہرزہ سرائی پر انہی کے انداز میں جواب دینے شروع کر دیے مگر چاہ کر بھی ہم اور ہمارے بچے اخلاق کا دامن نہ چھوڑ پائے ان کی گفتگو میں آج بھی بدتمیزی اور بدتہذیبی کے ہر ریکارڈ کو توڑا جاتا ہے شرمناک حد تک چھوٹے، بڑے، مرد وزن کی تمیزکیے بغیر خواجہ سرا قرار دینا اور اسی طرح کی دیگر لغویات کو استعمال کرتے چلے جانا مگر اس سب پر سب کی مجرمانہ خاموشی، اور ان کو کوئی جواب میں قوم یوتھ بھی کہہ دے تو محب وطن پاکستانیوں کی جانب سے مذمت کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں اخلاقی پیمانے گنوائے جاتے ہیں جبکہ قوم یوتھ کا مطلب گالی تو نہیں ناں ؟ لغت سے استفادہ کر سکیں تو اس کا مطلب ہے جوانوں کی قوم بس؟؟
کرپشن پر چور، جھوٹ پر جھوٹا، خیانت پر خائن کہہ دیا۔ ایسا ہی ہے ناں؟ جبکہ وہاں سے
اوئے ابے تبے کے ساتھ بلو رانی، کٹا، ڈیزل، اور اسی طرح کے بہت سے مخرب الاخلاق نام پکارے جانے پر ہنس کر کہنا
ہائے ہینڈسم نے کہا ہے ناں کیا ادا ہے ہینڈ سم کی!!!
وہ سڑک پر مخلوط رقص کرائے ہم اسے نماز لکھیں۔ وہ رات فرح گوگی کے ذریعے کسی کے بستے گھر کو اجاڑ کر پنکی پیرنی کو اٹھا لائے ہم اسے روٹین کے تعلقات لکھیں، وہ سیاست اور محبت میں سب جائز کا نعرہ لگا کر جوانوں کو گمراہ کن نظریات دے ہم اسے اس کی درویشی کہیں، وہ کشمیر کا سودا کروا کر جنرل اسمبلی میں کشمیر پر تقریر کرکے یہ منوا لے کہ کشمیر کا آزاد ہونا اہم نہیں ہاں مگر ہینڈسم نے جو تقریر کی وہ بہت ہی اچھی تھی، وہ عقائد کی بنیاد پر ختم نبوت کا سودا کر کے آسیہ مسیح کو رہا کرا کر سیرت النبی کانفرنس منعقد کروا کر اک درباری عالم دین کو بلوا کر اپنے فہم، علم اور حلم پر حب مصطفیؐ پر فتویٰ لے لے ہم مصلحت کہیں۔ نہ صاحب ناں ہم سے نہیں ہوتی یہ منافقت اور یہ خامشی کہ جس میں صبر و برداشت کے میڈل تو شاید آپ جیسے افراد دے دیں مگر ہم اپنی تحریک کے بچوں کو تو چلیں سمجھا لیں گے عام افراد کے بچوں اور گھر والوں کی ان خاموش صداؤں کا کیا جواب دیں کہ وہ ان نوجوانوں کی بدمعاشی کا شکار ہو کر شکوہ کناں نظروں سے ہمیں دیکھتے ہیں کہ کیا اب بھی نہیں بولیں گے؟ کیا اب بھی ان کی قینچی کی طرح چلتی ہوئی تیز دھار زبانوں کو اک کرارے سے پیغام کے ساتھ بند نہیں کریں گے؟
جناب جب عالم کے مقابلے میں علماء سوء یا درباری علماء کا نام ہمارے پاس موجود ہے تو ہم ڈیزل اور لنگڑا کہہ کر کیوں تضحیک کی اجازت دیں؟ سو ہم جیسوں نے بھی سوشل میڈیا پر نشست سنبھال لی مگر دفاع میں۔ جب دیکھا ملک خطرے میں ہے نظریہ خطرے میں ہے ایمان خطرے میں ہے صالح اجتماعیت کی جان خطرے میں ہے میرے قائد کا فرمان خطرے میں ہے اور تو اور فوج، عدلیہ اور پاکستان کا نظام خاندان خطرے میں ہے۔ مگر ہم اس سوشل میڈیا پر حملہ آور بن کر وار نہیں کرتے بلکہ دفاعی سپہ سالار بن کر ان کی غلیظ بیانی اور بدتمیزی اپنے لفظوں کی ڈھال سے روکتے ہیں۔
میں اور آپ تو اہل علم نظر آنے کی چاہ میں جواب نہ دیں اور ان کے مداری، شکاری باقی ماندہ بچ رہنے والوں کا شکار کرکے اگلی مرتبہ ختم نبوت کا ایکٹ ہی لپیٹ کر چلتے بنیں اور ہم بس ’’تعلیم یافتہ‘‘ لگے رہیں۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ ڈگریاں بھی ہیں اور تدبرون وتفکرون کی صلاحیت بھی ہے مگر یہ ففتھ جنریشن وار کی جنگی حکمت عملی ہے اور سوشل میڈیا میدان جنگ اور یہ بد تہذیب و عریاں حروف گری ہتھیار ہے، ہے ناں دور دجل کے پر فتن محاذ؟
میرا نظریہ اسلام پر بنا پاکستان اور اس کا عقیدہ ختم نبوت کے پیارے عقیدے سے آراستہ آئین پاکستان ہر رشتے سے بڑھ کر ہے اور دعائے قنوت کا ترجمہ میرے رگ وریشے میں ہے کہ: ’’ہم ترک کرتے ہیں اس کو، چھوڑتے ہیں اس کو جو تیری نافرمانی کرے‘‘ اور ہم الحمدللہ صرف چھوڑتے ہی نہیں بلکہ تسلی کرا کر ان کی زبان دانی کے لیول پر تو اللہ تعالیٰ کسی کو نہ لائے مگر پھر بھی ان کے زبانی گولہ بارود انہی پر الٹا کر سرخرو ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور ان شاء اللہ کرتے رہیں گے اللہ کریم ان دجالی فتنوں سے قوم یوتھ کے شرور سے ہمیں بچا کر رکھے آمین
آپ سب کے لیے اتنا ہی کہوں گی کہ
یارب نہ وہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے میری بات
دے ان کو دل اور جو نہ دے مجھ کو زباں اور