اسلام آباد (آئی این پی) تحریک انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے مراسلے پر عدالت عظمیٰ سے اوپن سماعت کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کارکنان کو دارالحکومت اسلام آباد میں مارچ کرنے کی تیاریوں کی ہدایت کردی۔ انہوں نے کہا کہ مراسلہ سچ ثابت ہوگیا ہے اور سازش بھی ثابت ہوگئی ہے‘ شہبازشریف میرے ساتھ شامل نہ ہوں‘ خدا کے لیے میرے پا س نہ آنا‘ تمہاری طرح کے چور کی مجھے ضرورت نہیں ہے لیکن مجھ سے معافی تو مانگ لو یہ مراسلہ انہوں نے بھیجا ہے تم جن کے بوٹ پالش کرنے کے ماہر ہو‘ پاکستان کی حقیقی آزادی کے لیے اسلام آباد کی کال دوں گا‘ چیف الیکشن کمشنر جانبدار ہیں اس پر ہمیں اعتبار نہیں اس لیے ان کو مستعفی ہو جانا چاہیے‘ 27 رمضان المبارک کو شب دعا منائیں گے۔ ان خیالات کا اظہارانہوں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ سابق وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کی حقیقی آزادی کے لیے اسلام آباد کی کال دوں گا‘ قومی سلامتی کمیٹی نے تسلیم کیا کہ مراسلہ حقیقت ہے، جس میں تکبر کے ساتھ دھمکی دی گئی تھی اور تکبر کے ساتھ کہا گیا تھا کہ عمران خان کو ہٹایا گیا تو معافی دی جائے گی‘ وہ چاہتے ہیں کہ مراسلے کی تحقیق کے لیے عدالت عظمیٰ اوپن سماعت کرے، تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ کون کون لوگ غیر ملکی سفارت خانے جاتے تھے‘ عدالت عظمیٰ کو اب وہ کرنا چاہیے جو بہتپہلے کرنا چاہیے تھا، کیوں کہ ملکی آزادی اور خود مختاری کے خلاف بڑی سازش ہوئی ہے‘ اگر عدالت عظمیٰ نے اوپن سماعت نہ کی تو کوئی سربراہ آئندہ کھڑا نہیں ہوگا۔ چیئرمین تحریک انصاف نے دعویٰ کیا کہ انہیں جنوری 2022ء میں ہی معلوم ہو چکا تھا کہ سازش کی جا رہی ہے‘ اگر اب ادارے کھڑے نہ ہوئے تو ہمارے بچوں کا بھی مستقبل خطرے میں ہے۔ عمران خان نے کہا کہ نواز شریف نے لندن میں بیٹھ کر سازش کی اور انہوں نے لوگوں سے ملاقاتیں کیں جب کہ ان کے چھوٹے بھائی اورآصف علی زرداری نے ان کا ساتھ دیا‘ شہباز شریف اور ان کے بیٹے کو 40 ارب روپے کی کرپشن کا جواب دینا ہے‘ شہباز شریف نے سب سے پہلے تفتیش کرنے والے افسران کو ہٹایا اور اپنے اوپر کیسز ختم کرانا چاہتے ہیں‘شہباز شریف کی کابینہ میں زیادہ تر کرمینل وزرا ہیں‘ میرا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیں میں تو ویسے بھی باہرنہیں جانا چاہتا‘ ضمانت پر رہا شخص فیتے کاٹتا پھر رہا ہے‘ منحرف اراکین بے شرمی سے بکے‘ کیا منحرف اراکین کا عدالتوں کو روزانہ کی بنیاد پر کیس نہیں سننا چاہیے؟ عمران خان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ بھی سن رکھا ہے کہ کوئی کہہ رہا تھا کہ اس طرح کے مراسلے آتے رہتے ہیں، کوئی یہ بھی کہتا ہے کہ پہلے بھی ایسی دھمکیاں دی جاتی تھیں تو ان لوگوں کوشرم آنی چاہیے‘ کبھی بھی ڈپلومیٹک ٹرم میں اس طرح کی زبان نہیں استعمال کی جاتی ہے‘ پاکستان میں ذولفقار علی بھٹو کو دھمکی ملی تھی اس کے بعد پرویز مشرف کو دھمکی ملی اور وہ چاروشانے چت ہوگیا اور ڈالر کے لیے ان کی جنگ میں شامل ہوگیا اب یہ تیسری باردھمکی آئی ہے لیکن ہم نے اس دھمکی کو کسی صورت قبول نہیں کرتے۔