عدلیہ آئین کی با لادستی کیلیے کھڑی ہے،تنقید سے فرق نہیں پڑتا،چیف جسٹس

125

اسلام آباد(نمائندہ جسارت) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ عدالت عظمیٰ آئین کی بالادستی کے لیے کھڑی ہے، جب تک آئین کو ماننے والے ہیں تنقید سے فرق نہیں پڑتا۔عدالت عظمیٰ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے صدارتی ریفرنس کی سماعت ہوئی جس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو لوگ تنقید کرتے ہیں ان کو کوئی نہ کوئی تکلیف پہنچی ہوتی ہے،عدالت کے دروازے ناقدین کے لیے بھی کھلے ہیں، عدالت کا کام سب کے ساتھ انصاف کرنا ہے، ذاتی کنٹرول اور برداشت لوگوں میں سے ختم ہوتی جارہی ہے۔جسٹس عمر عطابندیال کاکہنا تھا کہ کوئی ہمارے بارے میں کچھ بھی سوچے ملک کی خدمت کرتے رہیں گے۔ دورانِ سماعت عدالت میں دلائل دیتے ہوئے رضا ربانی نے کہا کہ صدارتی ریفرنس کے بعد آئینی عہدیداروں نے آئینی اداروں پرحملہ کیا، آئین کے لیے کھڑے ہونے پر ہی اداروں کے خلاف مہم چلی، جمہوری اداروں پر بدنیتی پر مبنی تنقید کے 2 طرح کے نتائج برآمد ہوتے ہیں، تاریخ سے ثابت ہے بدنیتی پرمبنی تنقید سے ملک فاشزم کی طرف جاتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ تاریخ بتاتی ہے پیپلز پارٹی نے قربانیاں دے کر بھی ہمیشہ اداروں کا ساتھ دیا، ملک کے لیے قربانیاں دینے والوں کا بہت احترام کرتے ہیں۔رضا ربانی نے کہا کہ لازمی نہیں کہ پارٹی سے وفا نہ کرنے والا بے ایمان ہو، کاغذات نامزدگی میں دیا گیا حلف پارٹی سے وابستگی کا ہوتا ہے، اصل حلف وہ ہے جو بطور رکن قومی اسمبلی اٹھایا جاتا ہے، آرٹیکل 63اے ارکان کو پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ نہ دینے کا خوف دلاتا ہے، پاکستان میں چند دن پہلے وزیراعظم آئین کی سنگین خلاف ورزی کے لیے تیار تھا، لیکن استعفا نہیں دیا، پارٹی سے انحراف پر آرٹیکل 62 ون ایف کا اطلاق نہیں ہوتا، آرٹیکل 63 اے کے تحت منحرف رکن ڈی سیٹ ہوتا ہے، نااہل نہیں، انحراف کی سزا رکنیت کا خاتمہ ہے مزید کچھ نہیں۔ جسٹس منیب اختر نے رضا ربانی سے کہا کہ فوجی عدالتوں کے حق میں ووٹ دے کر آپ رو پڑے تھے، آپ نے تقریر میں کہا تھا کہ ووٹ پارٹی کی امانت ہے، اگر مستعفی ہوجاتے تو کیا خیانت ہوتی؟آپ نے کسی خوف کا اظہار نہیں کیا تھا۔رضا ربانی نے کہا کہ استعفا دینے کے بعد حالات کا سامنا نہیں کرسکتا تھا، استعفا دینے کے لیے اخلاقی جرات نہیں تھی، استعفا دینے کا مطلب سیاسی کیریئر کا خاتمہ ہے۔تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے کہا ریفرنس میں دو بنیادی سوالات اٹھائے گئے ہیں، ایک آرٹیکل 63 اے کے تحت ملنے والی سزا اور دوسرا کیا منحرف رہنما کی نااہلی تاحیات ہو گی یا نہیں۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج جمعہ تک ملتوی کردی۔