ایک زمانے سے امریکا دنیا بھر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر شور مچاتا آیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خود امریکا میں بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں۔ امریکا بھر میں نسل پرستی آج بھی ایک بڑے مسئلے کے طور پر موجود ہے۔ سیاہ فام افراد سے امتیازی سلوک نے اب تک دم نہیں توڑا۔ نسل پرستی کے معاملے میں صرف سیاہ فام امریکی ہی مظلوم و ستم رسیدہ نہیں بلکہ ایشیائی ممالک سے تعلق رکھنے والے بھی امتیازی سلوک کا نشانہ بنتے ہیں۔ امریکا کو خدائی فوجدار بننے کا بہت شوق ہے۔ وہ دنیا بھر میں بنیادی حقوق کی صورت ِ حال کے حوالے سے معلومات جمع کرتا پھرتا ہے اور پھر چھوٹی سی بات کو بھی بڑا کرکے پیش کرتا ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ انٹونی بلنکن نے حال ہی میں بھارت میں بھی بنیادی حقوق کا مسئلہ اٹھایا۔ اس پر بھارت بہت چراغ پا ہوا۔ بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر امریکا میں سفیر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے امریکی ہم منصب کو بھرپور جواب دینے کی کوشش کی۔ اس سے پہلے بھی بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے امریکی محکمۂ خارجہ کی رپورٹس پر نکتہ چینی کی جاتی رہی ہے۔
غیر سفید فام نسلوں کے لوگوں سے امریکا میں کیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے اِس سے دنیا واقف ہے۔ 46 سالہ جارج فلائڈ کو جب پولیس کے اہلکار اپنے پیروں تلے روند رہے تھے تب وہ کہہ رہا تھا کہ میں سانس نہیں لے پارہا ہوں۔ امریکا میں ’’بلیک لائیوز میٹر‘‘ نامی تحریک آج بھی چلائی جارہی ہے۔ مارٹن لیوتھر کنگ جونیئر نے کہا تھا ’’میں نے ایک خواب دیکھا ہے‘‘۔ آج تک امریکا میں سفید فام آبادی کے کتنے خواب شرمندۂ تعبیر ہو پائے ہیں۔ امریکا میں دنیا بھر کے لوگ تعلیم اور ملازمت کے سلسلے میں بسے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کسی سے بھی پوچھ دیکھیے، اندازہ ہوگا کہ وہ کبھی نہ کبھی تو نسل پرست رویے کا شکار ہوا ہی ہوگا۔ حال ہی میں سکھ نوجوانوں سے اہانت آمیز سلوک کا واقعہ بھی رونما ہو اہے۔ امریکا کی پنسلوانیا یونیورسٹی کی پروفیسر ایمی ویکس نے حال ہی میں ایک ٹی وی انٹرویو میں ایشیائی نسل کے لوگوں کے لیے انتہائی اہانت آمیز الفاظ ادا کیے ہیں۔ ایسے واقعات امریکی حکام کو دکھائی نہیں دیتے۔ امریکا کے سفید فام آج بھی سپر پاور ہونے کے حوالے سے انتہائی گھمنڈی ہیں۔ وہ اپنے آپ کو بہترین انسان سمجھتے ہیں۔ اُن کے نزدیک صرف امریکی ہی دنیا کو چلا سکتے ہیں۔
امریکا نے اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تقویت بہم پہنچانے کے لیے کتنے ہی ممالک کو تاراج کیا ہے۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور کئی دوسرے ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ خاصے پُرامن انداز سے جینے والوں کو امریکا نے جمہوریت لالی پاپ دکھاکر حیران و پریشان کردیا ہے۔ امریکا نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے جو خرابیاں پیدا کی ہیں اب اُن کے احتساب اور ازالے کا وقت آگیا ہے۔ امریکی قیادت اب بھی کسی کی بات سُننے کو تیار نہیں۔
امریکا کے لیے انتہائی پریشان کن بات یہ ہے کہ اب متعدد ممالک اُس کی طرف سے کی جانے والی تنقید آسانی سے برداشت نہیں کرتے بلکہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔ ایشیائی ممالک میں بھی یہ کوئی انوکھی بات نہیں۔ امریکا چند ممالک کو نشانہ بناکر دنیا کی نظروں سے گرانے کی کوشش کرتا ہے۔ پاکستان میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کا بھی امریکا نے مختلف ادوار میں بہت ڈھنڈورا پیٹا ہے۔ امریکا دوسروں کی آنکھوں تنکا ڈھونڈتا ہے مگر اپنی آنکھ کا شہتیر اُسے دکھائی نہیں دیتا۔ امریکا نے پاکستان اور افغانستان سے بہت سے لوگوں کو محض دہشت گرد ہونے کے شبہے کی بنیاد پر اٹھوالیا ہے۔ گوئٹے مالا جیل اِس کی بہت نمایاں مثال ہے۔
روس نے یوکرین پر لشکر کشی کے بعد سے اب تک وہاں خاصی تباہی مچائی ہے۔ بنیادی حقوق کی پامالی بھی ہوئی ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے روسی ہم منصب ولادیمیر پیوٹن پر شدید تنقید کرتے کرتے اُنہیں عفریت بھی قرار دے دیا ہے تاہم سوال یہ ہے کہ تنقید کے سوا جو بائیڈن نے کِیا ہی کیا ہے۔ یوکرین اگر روس کے خلاف تھوڑا بہت اکڑ رہا تھا تو اس لیے کہ امریکا نے اُسے بھرپور حمایت و مدد کا یقین دلایا تھا۔ جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو اگلے ہی دن امریکا نے یوکرین کے صدر زیلنسکی سے کہا کہ اگر ملک سے نکلنا ہے تو ہم انتظام کیے دیتے ہیں! دنیا بھر میں بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ڈھول پیٹنے والے ملک کے صدر کا یہ حال ہے۔ یوکرین کے صدر سوچتے ہی رہ گئے کہ وہ وعدے کیا ہوئے اور وہ یقین دہانیاں کہاں گئیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یوکرین پر روسی لشکر کشی بالکل بے بنیاد ہے مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ امریکا کے مقابلے میں بھارت کے لیے روس زیادہ قابلِ اعتماد پارٹنر ہے۔ امریکا نے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو زیادہ نوازا ہے مگر روس نے بھارت کو امریکا سے زیادہ نوازا ہے۔ امریکا بھی دوست ہے مگر وہ دوست بن کر رہے، باپ یا مالک بننے کی کوشش نہ کرے۔
بنیادی حقوق کا راگ الاپ کر کسی بھی ملک کو ذلیل و رسوا کرنا اب امریکا کو زیب نہیں دیتا کیونکہ اُس کے ہاتھ بھی بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ امریکا میں اب وہ پہلی سی بات بھی نہیں رہی۔ اُس کی طاقت گھٹ چکی ہے۔ کسی بھی بڑے ملک سے متصادم ہونے کی ہمت اُس میں نہیں۔ اب وہ صرف کمزور ممالک کو دھمکا سکتا ہے اور کارروائیاں بھی اُنہی کے خلاف کرسکتا ہے۔
امریکا چاہتا ہے کہ روس کو سب تنہا چھوڑ دیں۔ چین، بھارت اور پاکستان ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ کئی دوسرے ممالک بھی روس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جو ممالک اُس کی جارحیت کو درست نہیں سمجھتے وہ بھی کسی نہ کسی طور اس معاملے میں اپنے آپ کو غیر جانب دار رکھے ہوئے ہیں۔ روس پر اقتصادی پابندیں عائد کیے جانے کے بعد امریکا اور یورپ نے کئی ممالک پر دباؤ ڈالا ہے کہ وہ روس سے تیل اور گیس نہ خریدیں۔ بھارت نے روس سے تیل خریدنے کی بات کی تو امریکا نے مداخلت کی کوشش کی۔ بھارت کی طرف سے دیا جانے والا جواب یہ تھا کہ جتنا روس سے ایک ماہ میں خریدتے ہیں اُتنا تو یورپ آدھے دن میں خریدتا ہے۔
حال ہی میں بھارت اور امریکا کے درمیان ٹو پلس ٹو ملاقات ہوئی۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن سے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر ملے جبکہ بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے امریکی ہم منصوبہ بوائڈ آسٹین سے بات کی۔ اس بات چیت میں بنیادی حقوق کا معاملہ ایجنڈے کا حصہ ہی نہیں تھا۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں انٹونی بلنکن نے بنیادی حقوق کا معاملہ چھیڑ کر تنازع کھڑا کیا۔ بعض حلقوں کی طرف سے یہ تجویز بھی سامنے آئی ہے کہ جس طور امریکا انسانی حقوق کی صورتِ حال پر سالانہ رپورٹ جاری کرتا ہے بالکل اُسی طرح اُس کے ہاں انسانی حقوق کی صورتِ حال پر بھی رپورٹ جاری کی جانی چاہیے۔ تجویز بُری نہیں۔
(بھارت کے شہر احمد آباد سے شایع ہونے والے روزنامہ ’’سندیش‘‘ کا تجزیہ۔