گیم از اوور

430

اے ابن آدم جس دن سے اپوزیشن کی عدم اعتماد کی تحریک شروع ہوئی پوری قوم ذہنی دبائو کا شکار رہی۔ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ میں لفظ قوم کا استعمال کررہا ہوں جب کہ کردار دیکھا جائے تو 74 برس میں ہم قوم نہ بن سکے۔ کل بھی ہجوم تھے اور آج بھی ہجوم ہیں، اس ہجوم کو یہ تک علم نہیں ہے کہ جو کچھ ملک میں ہورہا ہے کیا وہ قومی مفاد کے لیے ضروری ہے، ہمارے ملک میں جب بھی حکومت گرتی ہے ہماری قوم بھنگڑے ڈالنا شروع کردیتی ہے۔ 1990ء، 1993ء، 1996ء، 1999ء میں قوم نے بھنگڑے ڈالے، 2008ء میں جنرل مشرف کی صدارت گئی قوم نے بھنگڑے ڈالے، عمران خان وزیراعظم بنے قوم نے بھنگڑے ڈالے۔ عمران خان کے جانے پر بھی ہجوم نے بھنگڑے ڈالے۔ اب سوال یہ ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کی پریس کانفرنس پر کون کون بھنگڑے ڈالے گا۔ بلاول اور مریم نواز نے تو بھنگڑے ڈالنے شروع کردیے جب کہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ہمارے موقف کی تائید کردی ہے۔ سب ڈرامے دیکھ کر آخر میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے جو پریس کانفرنس کی سب کی سٹی گم کردی۔
سوشل میڈیا پر فوج مخالف مہم چلائی جارہی تھی ، اخباری خبر کے مطابق ایف آئی اے اور آئی ایس آئی نے تحقیقات شروع کردی ہے، ایک ہفتے میں نتائج سامنے آجائیں گے۔ اس وقت ملک کی سیاست میں حد سے زیادہ گرمی آئی ہوئی ہے۔ عمران خان ذہنی طور پر عدم اعتماد کو قبول نہیں کرپا رہے ہیں۔ عمران خان نے اعلان کیا کہ اب ان چوروں، ڈاکوئوں کے خلاف جنگ ہوگی، ہر شہر، ہر گلی، ہر محلے سے لوگوں کو نکلنا ہوگا اور ابن آدم یہ دیکھ رہا ہے کہ لوگ نکل رہے ہیں۔ عمران خان نے آنے والے الیکشن کی تیاری شروع کردی ہے۔ پی ڈی ایم کی اس تحریک میں جماعت اسلامی کا کردار سب سے اعلیٰ تھا۔ جماعت کے امیر سراج الحق نے جو بات کہی اس پر قائم رہے، ان کا مطالبہ شفاف الیکشن کا تھا، میرے حساب سے ملک میں جو کچھ ہوا ہے وہ جمہوریت کے لیے اچھا نہیں ہے۔ عمران خان کا گراف خود تیزی سے گرتا جارہا تھا، انہوں نے عوام کو سوائے مہنگائی اور بے روزگاری کے کچھ نہیں دیا بس خوب صورت باتیں کرتے رہے اور چوروں کو نہیں چھوڑوں گا کا بس نعرہ ہی لگاتے رہے مگر کیا کچھ بھی نہیں، اگر اُن کو 5 سال پورے کرنے دیے جاتے تو آنے والے الیکشن میں وہ حکومت میں نہیں بلکہ اپوزیشن میں ہوتے۔
تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی اور ہونی بھی تھی کیوں کہ سب کے سب ایک پیج پر متحد تھے۔ عمران خان کو فوج سے بڑی امید تھی کہ فوج اُن کا ساتھ دے گی، فوج بھی تو سامنے والے کی کارکردگی دیکھ رہی تھی، عوام مہنگائی سے تنگ آچکے تھے، مسائل روز بروز بڑھتے جارہے تھے، فوج اور اسٹیبلشمنٹ سب دیکھ رہی تھیں، آج عمران خان کو یہ سب برے کیوں لگ رہے ہیں جب آپ کی نااہل کابینہ عوام کے لیے کچھ نہیں کرسکی تو ملک کی سلامتی کے ادارے آپ کے ساتھ کیوں تعاون کرتے، جب سوشل میڈیا پر فوج کو پارٹی بنایا گیا اس پر انگلیاں اٹھائیں تو ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے پریس کانفرنس کرکے قوم کو بتایا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں ہے۔ ڈیمارش صرف سازش پر نہیں دیے جاتے اور بھی وجوہات ہوتی ہیں مگر ان وجوہات پر روشنی نہیں دالی۔ خیر یہ کام عوام کا ہے بھی نہیں جب ملک میں قومی سلامتی کمیٹی موجود ہے تو اس طرح کی بیرونی سازشوں پر نظر رکھنا بھی ملک کی سلامتی کے ریاستی اداروں پر آتی ہے۔ امریکا کی جانب سے فوجی اڈوں کا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا، اگر مطالبہ ہوتا تو فوج کا بھی وہی موقف ہوتا جو اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کا تھا۔ تمام اداروں کا آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا ہی بہترین ملکی مفاد کی ضمانت ہے۔ فوج کسی کو این آر او دینے کی پوزیشن میں نہیں تو پھر ایک سوال دماغ میں آتا ہے کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے بھی تو ملک کو لوٹ کا مال سمجھ کر کھانے والوں کو این آر او دیا تھا۔
ہمارے ملک میں جب جس طاقت ور کا دل کرتا ہے وہ اپنی مرضی سے قانون بنا لیتا ہے، قانون بنا کر اُس پر عمل بھی کروا لیتا ہے۔ اس ملک کی 98 فی صد غیر مراعات یافتہ عوام کو 74 برس میں کسی حکومت نے کوئی این آر او دیا؟ کس غریب کسان کے قرضے معاف ہوئے؟ کس بیوہ کا ایچ بی ایف سی کا لون معاف ہوا؟، کس غریب کو انصاف دینے کے عدلیہ نے رات میں عدالت چلائی؟ سوالات تو قوم کے ذہنوں میں موجود ہیں جس کا فیصلہ عوام 2023ء میں ضرور دیں گے۔ خیر بات ہورہی ہے ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کی۔ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے کوئی آپشن نہیں دیا۔ سابق وزیراعظم نے رابطہ کیا اور اپوزیشن سے 3 آپشنز پر بات کرنے کے لیے کہا۔ مگر فوج نے آئینی کردار ادا کیا، پاک فوج ملکی سلامتی و دفاع کے لیے ہمہ وقت چوکس اور تیار ہے۔ عوام کی حمایت فوج کی طاقت کا منبع ہے، فوج واحد ریاستی ادارہ ہے جس میں کسی بھی قسم کی تقسیم نہیں سیاست میں نہ گھسیٹا جائے۔ انہوں نے کہا کہ 74 برس سے تمام سیاسی جماعتوں کا ایک ہی مطالبہ رہا کہ فوج کا سیاست میں کوئی کام نہیں، ہم نے اُس کو پورا کیا۔ ان شاء اللہ اب اس ملک میں مارشل لا کبھی نہیں آئے گا۔ اگر حکمران محب وطن ہوں، ایماندار ہوں، غدار نہ ہوں، کرپٹ نہ ہوں، عوام کا خیال رکھنے والے ہوں تو پھر کوئی جنرل مارشل لا کا آپشن استعمال نہیں کرتا۔ حکمرانوں اور اپوزیشن کی آپس کی چپقلش بھی مارشل لا کو ہوا دیتی ہے۔ جس طرح سے موجودہ ملک کی صورت حال چل رہی تھی حالات انارکی کی طرف جارہے تھے فوج بھی چوکس تھی لوگوں کے ذہنوں میں یہ آپشن چل رہا تھا، سوشل میڈیا پر بھی من گھڑت خبریں چلتی رہیں۔ اسلام آباد میں فوج آگئی ہے، کل یہ سارے چور فوج اندر کردے گی، ملک کے بڑے چوروں کا خاتمہ ہونے والا ہے مگر جو ہوا وہ سب کا سب قوم کے سامنے ہے۔ سیاست اور قومی سلامتی دو الگ الگ چیزیں ہیں سیاست میں تو جتنا گند ہے وہ آپ یک سامنے ہے، ایک گھر میں 4 افراد ہیں تو سب کے سیاسی نظریات الگ ہوتے ہیں، باپ مسلم لیگی، ماں پیپلز پارٹی، بیٹا بڑا ایم کیو ایم، بیٹا چھوٹا تحریک انصاف کو پسند کرتا ہے۔
آخر میں ایک درخواست ضرور کروں گا کہ صدر پاکستان نے فوجی عدالتوں کو بحال کردیا ہے، اگر ہمارے ریاستی ادارے پاکستان اور پاکستانی قوم کی ترقی چاہتے ہیں تو نئے آنے والے الیکشن سے قبل تمام مافیا کے خلاف سخت کریک ڈائون کی ضرورت ہے، لٹیروں سے ملکی دولت کی واپسی کا بندوبست چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، ذخیرہ اندوزوں، اسمگلروں، ناجائز منافع اور رشوت خوروں کو پابند سلاسل کریں اور کرپشن پر انتہائی سزا کا قانون بنوائیں۔ پاکستان دشمن کو کسی قیمت نہ چھوڑا جائے۔