عدالت عظمیٰ نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ عدالتیں 24 گھنٹے کھلی ہیں کسی کو انگلی اٹھانے کا حق نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے 63-A کی تشریح کے لیے ریفرنس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ آئین کے تحفظ پر گالیاں پڑتی ہیں۔ عدالت کے ریمارکس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 15 ہزار لوگ جمع کرکے فیصلوں پر تنقید کریں گے تو ہم فیصلے کیوں کریں۔ عدلیہ کی جانب سے یہ بات بتارہی ہے کہ سابق وزیراعظم کی جانب سے اس شکوے پر وہ ناراض ہیں کہ میرے معاملے میں عدالت رات کو کیوں کھولی گئی۔ انہوں نے کراچی کے جلسے میں بھی یہی بات دہرائی تھی کہ میں نے ایسا کون سا جرم کردیا تھا کہ عدالت رات 12 بجے کھولی گئی، تو اس کا جواب بھی دے دیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ آئین کی خلاف ورزی ہو تو نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ کیا ایسی خلاف ورزی پر کوئی ہنستے کھیلتے نکل جائے یا اِسے خمیازہ بھگتنا چاہیے۔ عمران خان کے اسمبلیاں توڑنے کے فیصلے کے بعد عدالت نے رات گئے درخواستیں قبول کیں، ججز عدالت پہنچے۔ اس درخواست کا جائزہ لیا اور اسے قابل سماعت قرار دیا گیا، اگر عمران خان اسپیکر، عارف علوی اور عمران خان نیازی کی کابینہ آئین کو فٹ بال بنا کر 15 منٹ میں اسمبلیاں تحلیل کردیں تو کیا عدالت عظمیٰ نوٹس نہیں لے گی۔ اس عدالت عظمیٰ نے چند ماہ قبل عمران خان کو دفعہ 62/63 پر پورا اُترنے اور صادق و امین ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا تھا تو اس پر انہوں نے کیوں اعتراض نہیں کیا، اس وقت بھی عدالت عظمیٰ ان ہی ججوں پر مشتمل تھی۔ صرف چیف جسٹس کا فرق ہے۔ اب عمران خان نے جسٹس فائز عیسیٰ قاضی کے خلاف ریفرنس بھیجنے کو غلطی قرار دے دیا ہے لیکن ان کے اپنے ساتھی ان کا ساتھ دینے کو تیار نہیں۔ عمران خان کے وکیل کابینہ کے رکن فروغ نسیم جو ضرورت پڑنے پر کابینہ سے استعفا دے کر وکیل بن جاتے اور ضرورت پوری ہونے پر پھر کابینہ میں آجاتے تھے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ عمران خان جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس بھیجنے پر اصرار کرتے رہے۔ فروغ نسیم جس طرح جیو ٹی وی پر بات کررہے تھے اس کے نتیجے میں تو وہ عمران خان کے مخالف ہی نظر آئے اور اقتدار ختم ہونے کے بعد ایسا ہی ہوتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ریفرنس کو سابق وزیراعظم اور صدر مملکت ہی نے کلیئر کیا اور فواد چودھری کی باتوں کو بکواس قرار دے کر ریفرنس کابینہ میں زیر بحث آیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مجھے کابینہ کے منٹس دکھائے جائیں۔ عمران خان عدالت پر انگلی اٹھانے سے قبل اپنا رویہ دیکھ لیں، اب فروغ نسیم نے بات افشا کردی ہے کہ عدالت کے خلاف تو عمران خان ہی تھے۔ ان کے غیر آئینی اقدام کے خلاف عدالت نے نوٹس لیا اور وہ مزید برہم ہوگئے۔ عدالتوں کے نظام کے بارے میں سوالات کیے جاسکتے ہیں اور کیے جانے چاہئیں کہ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ رات کے وقت ہر ایک کے لیے عدالت نہیں کھلتی اور بہت سے مواقع پر عام آدمی کو دن کے وقت بھی اپنی بات کہنے کا موقع بھی نہیں ملتا۔ لیکن اس عام رویے کو عمران خان کے خصوصی اقدام سے نہ ملایا جائے۔ اگر عدالت سارا سال بھی رات کو نہ کھلی ہو تو بھی اس خلاف ورزی پر رات کے کسی پہر بھی عدالت کھولنی چاہیے تھی۔ چیف جسٹس اس فیصلے سے قطع نظر عدالتوں کے نظام کو آسان بنانے پر بھی توجہ دیں فیصلے کرنے کی کوئی مدت تو مقرر کریں تاکہ عدالتوں پر بوجھ نہ رہے اور عوام تیس تیس سال عذاب نہ بھگتا کریں۔جب تک نظام عدل درست کام کرتا رہے گا ملک کسی اندرونی اور بیرونی خطرے کا شکار نہیں ہوگا۔ لہٰذا آئین کی پاسداری سے بڑھ کر نظام عدل کو قرآن و سنت کی روشنی میں مستحکم کرنا بھی ضروری ہے۔