لاہور(نمائندہ جسارت)امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ ملک کا آئین قومی وحدت کی علامت، مگر اس وقت مظلوم بن چکا ہے۔ صدر مملکت پارلیمنٹ کو تسلیم کرنے سے انکاری، ملک کا سب سے بڑا صوبہ بغیر وزیراعلیٰ کے چل رہا ہے، نئے وزیراعلیٰ کو پنجاب کا گورنر ماننے کو تیار نہیں۔ قوم میں پولرائزیشن اور تفریق خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ ملک کو درپیش مسائل سے نکالنے کا واحد حل انتخابات کا انعقاد ہے۔ الیکشن سے قبل انتخابی اصلاحات ہونی چاہیے۔ جماعت اسلامی متناسب نمائندگی کے تحت الیکشن چاہتی ہے۔ جماعت اسلامی نے انتخابی اصلاحات کا مکمل پیکج تیار کیا ہے، جسے تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ شیئر کیا جائے گا۔ ملک کو الیکٹیبلز اور مافیاز کی سیاست سے نجات چاہیے۔ سیاست پر اسٹیبلشمنٹ کے گملوں کی پیداوار چند خاندانوں کا قبضہ ہے۔ کرپٹ اشرافیہ کے ہوتے ہوئے غریب کی قسمت نہیں بدل سکتی۔ پرانے نظام کی حفاظت کے لیے نئے چوکیدار آ گئے۔ اصولی طور پر ان لوگوں کو کوئی عہدہ قبول نہیں کرنا چاہیے جن کے خلاف کرپشن کے کیسز ہیں۔چاہتے ہیں نئے وزیراعظم ماضی سے سبق سیکھیں۔ معیشت کی بہتری کے لیے قومی ڈائیلاگ کا آغاز ہونا چاہیے۔ وزیراعظم افغانستان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں۔ نئی حکومت مختلف الخیال جماعتوں کا مجموعہ، شنید نہیں کہ حالات ٹھیک ہوجائیں گے۔ پی ٹی آئی پونے 4 سال تک ملک کے حالات کی ذمے دار سابق حکومتوںکو ٹھیراتی رہی، نئے آنے والوں نے ابھی سے ہی یہ ذمے داری پی ٹی آئی پر ڈالنا شروع کر دی ہے۔ ملک کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے لیے اسلامی نظام کو نافذ کرنا ہو گا۔ جماعت اسلامی آئین و قانون کی بالادستی اور ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ وہ منصورہ میں سیکرٹری جنرل امیر العظیم اور سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف کے ساتھ پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ قبل ازیں سراج الحق نے منصورہ میں مجلس عاملہ کے اجلاس کی صدارت کی۔ امیر نے نائب امرا لیاقت بلوچ، میاں محمد اسلم، سیکرٹری جنرل امیر العظیم اور سینیٹر مشتاق احمد خان پر مشتمل انتخابی اصلاحات سے متعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے ڈائیلاگ کرنے کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دے دی۔ مجلس عاملہ نے فلسطین میں صہیونی قابض افواج کی دہشت گردانہ سرگرمیوں اور سوئیڈن میں اسلام دشمن قوتوں کی جانب سے قرآن پاک کی بے حرمتی کے اعلانات پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور اقوام متحدہ اور او آئی سی سے اپیل کی کہ وہ ان واقعات کا نوٹس لے۔امیر جماعت نے کہا کہ ملک میں سیاسی و جمہوری اقدار کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ عرصے میں گالم گلوچ کا عجیب کلچر پروان چڑھاجس کے نتیجے میں قوم میں شدید تفریق پیدا ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ ملک پر 74برس سے جاگیردار اور وڈیرے قابض ہیں۔ انتخابات سے قبل عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ایک عجیب قسم کا ماحول پیدا کر دیا جاتاہے۔ اسی مخصوص کلاس نے کبھی روٹی، کپڑا اور مکان، کبھی سب سے پہلے پاکستان اور کبھی تبدیلی اور نئے پاکستان کے نعروں کے ساتھ عوام سے ووٹ لیے، مگر مسائل کو حل نہ کیا۔ انھوںنے کہا کہ جماعت اسلامی سمجھتی ہے کہ چہرے یا چوکیدار بدل لینے سے نہیں بلکہ حقیقی تبدیلی نظام کو بدلنے سے آئے گی۔سراج الحق نے مطالبہ کیا کہ توشہ خانے کے 30 سالہ ریکارڈ کو پبلک کیا جائے تاکہ قوم کو معلوم ہو کہ ریاست کو ملنے والے تحائف سے کس کس نے فائدہ اٹھایا۔ ریاست کو ملنے والے تحائف قوم کی امانت ہیں۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کو امریکی خط کے ذریعے ختم کرنے کے دعوئوں سے متعلق عدالت عظمیٰ جوڈیشل کمیشن کے ذریعے تحقیقات کرائے تاکہ حقیقت معلوم ہو سکے۔ انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی سمجھتی ہے کہ پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کے اندرونی معاملات میں امریکی مداخلت کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ جماعت اسلامی نے ہمیشہ ملک میں امریکی مداخلت کی مخالفت کی ہے۔ ہم نے 5 سال ’’گو امریکا گو‘‘ تحریک چلائی۔ سی ٹی بی ٹی، کیری لوگر بل کی کھل کر مخالفت کی اور نیٹو افواج کی افغانستان میں مداخلت کے خلاف بھی بھرپور تحریکیں چلائیں۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم عمران خان نے ٹیلی فون کیا جسے ہم ویلکم کرتے ہیں۔ جماعت اسلامی مستقبل سے متعلق تمام فیصلے مشاورت سے کرے گی۔ جماعت اسلامی انتخابات میں اپنے جھنڈے، انتخابی نشان ترازو اور ’’اسلامی پاکستان ، خوشحال پاکستان‘‘ کے منشور کے تحت جائے گی۔