معاملات جتنے سادہ تھے اتنے ہی خوفناک حد تک الجھا دیے گئے۔ اگر غور کیا جائے تو منتقلی اقتدار، اعتماد کا ووٹ لینا، عدم اعتماد کو کامیاب یا ناکام بنانا آئینی و قانونی طور پر کوئی ایسا کام نہیں تھا جس کو آج کل کی زبان میں ’’راکٹ‘‘ سائنس کا نام دیا جا سکے۔ یہ بالکل ایسا جمہوری عمل ہے جیسے انتخابات کے فوراً بعد کسی بھی سیاسی پارٹی سے کہا جاتا ہے کہ وہ اقتدار سنبھالے اور ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرے۔ جس کو یہ پیشکش کی جاتی ہے وہ ایک مقررہ مدت کے اندر اندر ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کر کے اپنے آپ کو اقتدار کا اہل ثابت کر دے تو ٹھیک ورنہ یہ پیشکش کسی اور کی جانب بڑھا دی جاتی ہے۔ اعتماد کے ووٹ کے لیے بھی یہ ضروری نہیں ہوتا کہ سو فی صد یا دو تہائی اکثریت کی حمایت حاصل ہو بلکہ نہایت سادہ یعنی صرف ایک ووٹ کی بر تری بھی حاصل ہو جائے تو کرسی اقتدار اس کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی حکمران اپنی خراب کارکردگی کی وجہ سے ایوان میں اپنا اعتماد کھودے تو یا تو صدر ایسی صورت میں وزیر ِ اعظم سے کہہ سکتا ہے کہ وہ ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرے ورنہ بصورتِ دیگر ایوان کے ارکان وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی کوئی تحریک پیش کرنے کا قانونی حق رکھتے ہیں۔ ایسی صورت میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے والوں کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ ایوان کی کم از کم سادہ اکثریت حاصل کریں ورنہ ان کی تحریک عدم اعتماد مسترد ہو جائے گی۔
بے شک کوئی دو تہائی ووٹوں سے بھی زیادہ ووٹ لیکر ایوان میں آیا ہو یا دیگر چھوٹی بڑی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا کر حکومت بنانے میں کامیاب ہو گیا ہو، جب تک وہ ایوان کے اعتماد پر پورا اُترتا رہے گا، اقتدار کی کرسی پر بیٹھے رہنے کا حق دار رہے گا ورنہ بہر صورت اسے اقتدار سے الگ ہونا ہی پڑے گا۔بات نہایت سادہ سی تھی کہ عمران خان، سبب کچھ بھی ہو، ایوان میں اپنا اعتماد کھو چکے تھے اور صرف اتحادی ہی نہیں ان کی اپنی جماعت کے ارکان بھی ان پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ بہتر تو یہی تھا کہ جس لمحے ان کو یہ احساس ہو چلا تھا کہ وہ ایوان کا اعتماد کھوتے جا رہے ہیں تو وہ اقتدار میں شریک جماعتوں اور ناراض ساتھیوں کی جانب توجہ دیتے اور ان کے اعتماد کو بحال کرنے کی کوشش کرتے یا پھر اسمبلی توڑنے کی جانب چلے جاتے لیکن عاقبت نااندیش مصاحبین کے غلط مشوروں اور امیدیں دلانے کے فریب میں آکر آخر وقت تک وہ پر امید رہے کہ جیسے حالات نظر آ رہے ہیں حقیقت اس کے برعکس ہے اور عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے والے سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں کر پائیں گے۔ یہی غلط حساب کتاب ان کے خلاف چلا گیا۔ اب ہونا تو یہی چاہیے تھا کہ ایوان جو فیصلہ کرتا اسے قبول کر لیتے لیکن انہوں نے ایک ایسی راہ اختیار کی جو نہ صرف ان کے لیے ایک عذاب ثابت ہوگی بلکہ ریاست اور ریاست کے عوام شدید امتحان اور انتشار کا شکار ہوجائیں گے اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ ان حالات کا اختتام کہاں ہو گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کے فوراً بعد جو جلسے کیے وہ نہایت کامیاب ثابت ہوئے اور انہوں نے ثابت کیا کہ وہ عوام میں نہایت مقبول ہیں لیکن بات یہ ہے کہ اس مقبولیت اور پچھلے انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی اسمبلی میں ان کی موجودہ حیثیت کا تعین، ایک دوسرے سے بالکل مختلف بات تھی۔ جس انتخاب کے نتیجے میں ایوان نے ان کو وزیر ِ اعظم بنایا تھا اب وہی ایوان ان پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں تھا اس لیے عوام کی مقبولیت حاصل ہونا اور موجودہ اسمبلیوں میں اپنی حیثیت بر قرار رکھنا، دو مختلف شکلیں اختیار کر چکا تھا جس کا واحد حل یہی تھا کہ یا تو عہدے سے مستعفی ہو جاتے یا پھر حزبِ مخالف کی حیثیت سے ایوان میں مثبت کردار ادا کرکے قوم و ملک کی خدمت کرتے۔
عمران خان کا یہ کہنا کہ میں چوروں اور ڈاکوئوں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا اس لیے بھی غیر جمہوری عمل ہے کہ جمہوریت ’’عوام سے، عوام کی اور عوام کے لیے‘‘ ہوا کرتی ہے۔ ایک تو یہ کہ وہ خود پونے چار سال میں بھی اپنے مخالفین پر لگائے گئے الزامات کو ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں دوم یہ کیسے ثابت ہو گا کہ چور کون ہے اور کون نہیں۔ جمہوریت جمہور کی رائے کا نام ہے اور اگر عوام ان ہی کو ووٹ دیتے ہیں جو آپ کی نظر میں چور ہیں تو پھر کسی کے پاس کوئی علاج ہے ہی نہیں۔نیلسن منڈیلا اس وقت کے حکمرانوں کی نظر میں غدار تھا لیکن عوام کی نظر میں ہیرو تھا اور پھر وہی غدار کہلانے والا آخر ِ کار دنیا کا ایک بہت بڑا ہیرو ثابت ہوا۔ وزیر ِ اعظم کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ کسی کو چور یا ڈاکو ثابت کرے، اس کے لیے عدالتیں اور دیگر ادارے موجود ہوتے ہیں۔ وزیر اعظم کا کام عوام کی فلاح بہبود کے کام کرنا ہوتا ہے۔
عمران خان نے جو غیر جمہوری رویہ اختیار کیا ہے یہ کسی وقت بھی خونیں کھیل کی شکل اختیار کر سکتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے رویے پر نظر ثانی کریں اور جو ادارے ملک کے اندر اس لیے بنائے گئے ہیں کہ امن و امان کو بحال رکھیں گے، ان کا بھی فرض ہے کہ وہ حالات کو اس جانب لے جانے سے روکیں جہاں سے واپسی ناممکن ہو جائے۔ اقتدار کی منتقلی ایک جمہوری عمل تھا جو ہوچکی، اب اس عمل میں رکاوٹیں ڈالنے والوں پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور یہی وہ فرائض ہیں جو اداروں کی ذمے داریوں میں شمار ہوتے ہیں۔