اسلام آباد( نمائندہ جسارت) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ یہ عدالت 24 گھنٹے کام کرتی ہے،کسی کو انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں۔پیر کو عدالت عظمیٰ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے لیے دائر صدارتی ریفرنس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ آئین کی خلاف ورزی کوئی چھوٹی بات نہیں،کچھ لوگ تو فوراً آرٹیکل 6 پر چلے جاتے ہیں، کیا آئینی خلاف ورزی پرکوئی ہنستے کھیلتے گھنٹی بجاکر نکل جائے یا آئینی خلاف ورزی کا خمیازہ بھگتنا چاہیے،آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی آرٹیکل 6 کا کیس نہیں بنتا، عدالت تعین کرے گی کہ آئین سے انحراف کا کیا نتیجہ ہوگا، آئین کی خلاف ورزی کرنے والا یا اپنی خوشی پر جائے گا یا قیمت ادا کرنی ہوگی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم آئین کے محافظ ہیں، سوشل میڈیا پر جو چل رہا ہے اس کی پرواہ نہیں،آئین کی پاسداری اور حفاظت ہماری ذمے داری ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جب 10سے 15 ہزارلوگ جمع ہوکر عدالتی فیصلوں پرتنقید شروع کردیں تو ہم فیصلے کیوں سنائیں؟ عدالت سیاسی بحث میں کیوں شامل ہو؟ قومی لیڈروں کو عدالتی فیصلوں کادفاع کرنا چاہیے، سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کا تحفظ کریں ۔دوران سماعت ایڈووکیٹ جنرل اسلام آبادکا کہنا تھا کہ پارٹی سے انحراف رکن اسمبلی کے حلف کی خلاف ورزی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کے تحت تاحیات نااہلی ہوئی توآرٹیکل 95 کی کیا اہمیت رہ جائے گی؟ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے جواب دیا کہ آرٹیکل 95 کا سوال ابھی عدالت کے سامنے نہیں۔ بی این پی مینگل کے وکیل مصطفی رمدے نے دلائل میں کہا کہ صدر نے تو ریفرنس میں عدالت سے آئین دوبارہ لکھنے کا کہاہے، آرٹیکل 63 اے بالکل واضح ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئینی ترمیم میں ووٹ نہ دینا اور مخالف پارٹی کو ووٹ دینا الگ چیزیں ہیں، مخالف پارٹی کو ووٹ دینے کے لیے مستعفی ہونا زیادہ معتبر ہے۔وکیل مصطفی رمدے نے کہا کہ مستعفی ہونے جیسا انتہائی اقدام واحد حل کیسے ہوسکتا ہے؟ پارٹی سربراہ کی پابندی کرنا غلامی کرنے کے مترادف ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایسی بات سے آپ پارلیمانی جمہوریت کی نفی کررہے ہیں، پارلیمانی پارٹی کے فیصلے سے کسی رکن کو اختلاف ہے تو استعفا دے، ضمنی الیکشن آزاد حیثیت سے لڑ کر واپس آیا جاسکتا ہے، آرٹیکل 95 اور آرٹیکل 63 اے میں توازن پیدا کرنا ہوگا۔وکیل مصطفی رمدے نے کہا کہ عدالت کے خلاف سنجیدہ قسم کی مہم چلائی جارہی ہے، عدالت کومفروضوں کی بنا پر غیر ضروری سیاسی عمل میں دھکیلا گیا۔آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس کی سماعت آج پھر ہوگی۔