سب سے پہلے آپ کو ڈیلی ویجز اینڈ کنٹریکٹ ایمپلائیز ویلفیئر کمیٹی کراچی اور روزنامہ جسارت کے صفحہ محنت کی پوری ٹیم کی جانب سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بلا مقابلہ وزیر اعظم منتخب ہونے پر دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتے ہیں۔امید کرتے ہیں کہ آپ اپنی صلاحیتوں سے ملک کے محنت کش طبقے کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پرحل کرنے میں اپنا مثبت آئینی اور قانونی رول ادا کریں گے۔
جناب عالی۔ہمارے ملک میں 62 ملین سے زائد محنت کش ہیں۔جن میں 70% ٹیکسٹائیل،کاٹن،گارمینٹس وغیرہ کے شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ان میں ایک فیصد بھی محنت کش طبقہ ٹریڈ یونین میں شامل نہیں ہیں۔ 97% صنعتیں و کارخانے ایسے ہیں جہاں کم سے کم اجرت 20 ہزار روپے بھی ادا نہیں کی جاتی ۔بیروزگاری میں ہمارا ملک 77ویں نمبر تک پہنچ چکا ہے۔اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 9 سو سے زائد ٹریڈ یونینز بحال ہیں۔جن سے منسلک ورکرز کی تعداد 18 لاکھ سے زیادہ ہے۔یعنی 22 کروڑ کی آبادی میں سے تقریبا ساڑھے چھ کروڑ مزدور ہیں۔43% زراعت سے اور22% صنعت سے وابستہ ہیں۔
صلہ محنت تو دور کی بات ہے علاج و معالجے ،انشورنس ،سالانہ بونس،سالانہ انکریمنٹس ، EOBI میں رجسٹریشن کے ساتھ ساتھ سوشل سیکورٹی نہیں۔ کارکنوں کی فلاح و بہبودکے لیے ورکرز ویلفیئر فنڈکی اسکیموں، جس میں تعلیمی وظائف،صحت ، خصوصی بہبود، فنی تربیت، ڈیتھ گرانٹ،جہیز گرانٹ، اسکالر شپ، اسکول کی کتابوں، یونیفارم، جوتوں، ہائوسنگ سیکٹر یعنی مکانات کی الاٹمنٹ،سلائی مشینیں ،حج کی قرعہ اندازی اور دیگر مراعات سے آج تک محنت کش طبقہ محروم ہیں ۔حالانکہ یہ تمام تر مراعاتیں اورسہولیات نچلے گریڈز اور کم آمدن والے محنت کش طبقے کے لیے ہوتی ہیں۔
اداروں میں ڈیلی ویجز کے نظام کے تحت ڈیلی ویجز کے پاس سالانہ چھٹیاں E/L,C/L,S/L وغیرہ نہیں ہوتی۔ خوشی ،غمی، خاندان میں حادثاتی موت یا اتفاقی بیماری کی صورت میں ان قومی اداروں میں بھی ڈیلی ویجز کی تنخواہیں کاٹ لی جاتی ہیں۔ اگر کوئی ڈیلی ویج ملازم89 دنوں کے دوران مجبوراًیا بد قسمتی سے 8یا 9دن کام پر نہ جاسکے، تو اس کی 30سالہ خدمات کو بھی یکسر نظر انداز کرتے ہوئے فارغ کر دیا جاتا ہے۔وہ اس طرح سے ہے کہ لیبر لاء کے مطابق کسی مزدور کو 89 دن سے زیادہ عارضی ملازمت پر نہیں رکھا جا سکتا۔چنانچہ انتظامیہ اپنے مزدور کو89 دن سے قبل ہی ایک دو دن کے لیے ملازمت سے برخاست کردیتی ہے۔ اور پھر ایک یا دو دن کا وقفہ دینے کے بعددوبارہ ملازمت پربحال کر دیا جاتا ہے۔اس طرح سے کئی سالوں سے سرکاری و نیم سرکاری ادارے بڑی خوبصورتی سے قانون کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔
پاکستان کے کئی اداروں میں ہنر مند ہوں یا غیر ہنر مند،میٹرک ہو یا چاہے گریجویٹ، سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جاتا ہے۔ ہر ادارے میں 80فی صد سے زائد ہنر مند ملازمین ہوتے ہیں۔ لیکن تمام کو کم از کم اجرت غیر ہنر مندوالوں کی انڈر سیکشن 4 آف دی منیمم ویجز ایکٹ سے بھی کم سیلری دی جاتی ہے۔جبکہ انڈر سیکشن 5آف دی منیمم ویجز ایکٹ کے تحت، ہنرمندورکرزکوویجز نہیں دیے جا رہے ہیں۔اس سیکشن کے تحت مختلف ٹریڈ کے مختلف ویجز کے ریٹ مقرر کئے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ بین الاقوامی اعلیٰ معیار کے مطابق اور (Accuracy) میں کام کرنے والے کئی باصلاحیت ہنر مند ڈیلی ویجز کی حیثیت سے مختلف اداروں سے کم سے کم اجرت پر ریٹائرہوچکے ہیں اور ہورہے ہیں۔ 60 سال کی عمر پوری کرنے کے بعدجب ڈیلی ویجز کی حیثیت میں کم سے کم اجرت پر ملازمت سے فارغ ہوتا ہے تو خالی ہاتھ ہوتا ہے۔ جس سے پورا خاندان متاثر ہوتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں ایسی کوئی مثال ہی نہیں ملتی کہ سرکاری محکموں میں کام کرنے والے ڈیلی ویجز محنت کش ڈیلی ویجز کی حیثیت میں کم سے کم اجرت پر ریٹائر ہو رہے ہوں۔ کئی کئی سالوں سے کام کرنے والے ڈیلی ویجز محنت کش اب تو نانا اور دادا بن گئے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی اداروں میں باپ ڈیلی ویجزپر ہیںتو ان کے بیٹے بھی ڈیلی ویجز پرہی کام کر رہے ہیں۔ سماجی قدروں سے کٹی ہوئی یہ نسل اپنے آنے والی نسلوں کو کیا بتائیں گے، وہ تو اپنی جگہ، لیکن اپنے دوست و احباب کو ماہانہ آمدنی بتاتے ہوئے اپنا سر شرم سے جھکا دیتے ہیں ۔
ایک طرف پیپلز پارٹی کی حکومت نے1996 سے 1999 تک مختلف اداروں سے سیاسی بنیادوں پر نکالے گئے ملازمین کو دوبارہ بحالی سروس کا صدارتی آرڈیننس جاری کیا۔ جس سے12 ہزار سے زائد ملازمین کو نہ صرف بحال کیا گیابلکہ ان کو تمام مراعات بھی دے کراس صدارتی آرڈیننس کو پارلیمنٹ کے ذریعے بحالی سروس بل ایکٹ2010 اسمبلی سے پاس کر کے اسے آئین کا ایک حصہ بنادیا گیا۔جب کہ دوسری جانب ملکی تاریخ میں پہلی بار PPP سرکار نے وفاقی سرکاری محکموں میںکام کرنے والے تمام ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کرنے کے لئے کیبنٹ کی سب کمیٹی برائے ریگولرائیزیشن ان سروس بنائی گئی تھی ۔اس کمیٹی کے چیئرمین سید خورشید احمد شاہ تھے۔ اس کمیٹی نے اپنے اپنے من پسند اداروں میں کام کرنے والے من پسند ڈیڑھ لاکھ ملازمین کو مستقل کردیا تھا، لیکن جو اصل حقدار تھے وہ توآج تک محروم ہیں۔ مختلف ادروں کے ڈیلی ویجز ملازمین امتیازی سلوک کی بنیاد پر اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کیا۔ جون 2018 میںاسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے انٹرا کورٹ اپیلوں پر تفصیلی فیصلہ بھی آچکا ہے۔اس تفصیلی فیصلے میں ملازمین کی مستقلی کے لیے تین کیٹگریز بناتے ہوئے حکم دیا ہے کہ:
(جاری ہے)