پنجاب اسمبلی میں مارکٹائی ۔ حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ منتخب

256

لاہور ( نمائندہ جسارت/مانیٹرنگ ڈیسک) ن لیگ کے امیدوار حمزہ شہباز 197ووٹ لے کر پنجاب کے 21ویں وزیراعلیٰ منتخب جبکہق لیگ اور پی ٹی آئی نے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا‘پرویزالٰہی نے وزیراعلیٰ کے انتخاب کا نتیجہ ماننے سے انکار کردیا‘ آج سے اسپیکر کی نشست سنبھالنے کا اعلان کردیا ۔ آئینی بحران کا خدشہ پیدا ہوگیا۔ تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے ہفتے کو صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر سردار دوست محمد مزاری پر پی ٹی آئی ارکان نے حملہ کرکے انہیں تشدد کا نشانہ بنایااور ان پر لوٹوں کی بارش کر دی اور ایوان میں لوٹے لہرا دیے۔ سیکورٹی اہلکار دوست محمد مزاری کو بمشکل بچا کر واپس چیمبر میں لے گئے۔ ق لیگ اور پی ٹی آئی اراکین نے اسپیکر ڈائس پر قبضہ کرکے ’’علیم خان کا جو یار ہے، غدار ہے غدار ہے‘‘ کے نعرے لگائے۔ پی ٹی آئی اراکین نے ڈپٹی اسپیکر کو لوٹے اور تھپڑ بھی مارے۔ ڈپٹی اسپیکر کومکے مارنے والوں میں خیال احمد کاسترو، محمد اعجاز، لاریب ستی، واسق قیوم، تنویر بٹ، رانا شہباز، شجاعت نواز، مہندر پال سنگھ شامل تھے۔ شجاعت نواز اور مہندر پال سنگھ نے اسپیکر کی میز پر اور ڈائس پر لگے مائیک پر لوٹے رکھ دیے۔ اراکین کی جانب سے ڈپٹی اسپیکر کے بال کھینچے گئے اور دھکے بھی دیے گئے۔ ہنگامہ آرائی، بدنظمی کے باعث اجلاس روک دیا گیا۔ صورتحال پر قابو پانے کے لیے پولیس اسمبلی ہال میں داخل ہوگئی اور پنجاب اسمبلی کو گھیرے میں لے لیا۔ آئی جی پنجاب پولیس رائو سردار بھی اسمبلی پہنچ گئے۔وزیراعلیٰ کے امیدوار چودھری پرویز الٰہی نے اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کیسے ایوان کے اندر داخل ہوئی‘ ملکی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا‘ اس کا ذمے دار آئی جی پنجاب ہے اس کو ایوان میں بلا کر ذمے دار ٹھہرایا جائے گا، آئی جی کو ایک ماہ کی سزا دی جائے گی۔ پرویز الٰہی اورپی ٹی آئی اراکین کے شدید احتجاج پر پولیس ایوان سے واپس نکل گئی۔ پنجاب اسمبلی کے ایوان میں پولیس کے داخل ہونے پر پی ٹی آئی اراکین نے آئی جی پنجاب پولیس کے خلاف تحریک استحقاق جمع کرادی، جس کے متن میں کہا گیا کہ پولیس کو ایوان کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی‘ پولیس کو ایوان میں لاکر ایوان کا تقدس پامال کیا گیا ہے، پولیس کی جانب سے آئین اور پارلیمانی روایات پامال کرنے پر جواب طلب کیا جائے۔ اسپیکر ڈائس پر تحریک انصاف کی خواتین نے قبضہ کرلیا۔ ن لیگی ایم پی اے عظمیٰ بخاری اور حکومتی ایم پی اے عابدہ راجا کی لڑائی بھی ہوئی۔ عابدہ راجا نے عظمیٰ بخاری کو لوٹی نمبر ون کہا۔ دیگر ایم پی ایز نے دونوں میں بیچ بچا ئوکرایا۔ پنجاب اسمبلی میں شدید ہنگامہ آرائی کے دوران ووٹنگ کے بعد مسلم لیگ (ن)کے رہنما حمزہ شہباز197ووٹ حاصل کرکے پنجاب کے 21ویں وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے ہیں۔ ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری نے ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد ایوان سے مخاطب ہوکر کہا کہ آج جمہوریت کی کامیابی ہوئی ہے‘ ووٹوں کی گنتی کرلی گئی ہے جس کے مطابق چودھری پرویز الٰہی نے کوئی ووٹ حاصل نہیں کیا جبکہ محمد حمزہ شہباز نے 197ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ووٹنگ کے عمل کے دوران تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے ارکان اسمبلی نے انتخابی عمل کا بائیکاٹ کیا۔ دریں اثنا پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کے دوران وزارت اعلی کے امیدوار چودھری پرویز الٰہی بھی ہنگامہ آرائی کی زد میں آگئے اور تشدد سے زخمی ہوگئے۔ شدید ہنگامہ آرائی کے دوران چودھری پرویز الٰہی کو ایوان سے باہر لے جایا گیا۔ وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہونے کے بعد حمزہ شہباز شریف نے خطاب میں کہا ہے کہ عوام اور حکومت کے درمیان خلا کو ختم کروں گا‘ ڈپٹی اسپیکر کی بہادری کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں‘ جمہوریت کی فتح ہوئی ہے‘ ہائی کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کو اختیارات دیے لیکن آج آئین وقانون کا مذاق اُڑایا گیا اور ڈپٹی اسپیکر پر حملہ کیا گیا۔ حمزہ نے اعلان کیا کہ اتحادیوں کی مدد سے نیا اسپیکر لائیں گے اور ڈپٹی اسپیکر پر تشدد پر ایوان کی ان ہاؤس کمیٹی بنانی چاہیے اور جو ہوا اس کی بھرپور انکوائری ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھاکہ اچھے پولیس افسران اور اچھے بیوروکریٹ لیکرآئیں گے‘ہم انتقام نہیں لیں گے لیکن قانون اپنا راستہ اپنائے گا‘ ہماری حکومت عوامی حکومت ہوگی‘ عوام اور حکومت کے درمیان خلا کو ہم ختم کریں گے۔ میڈیا سے گفتگو میں پرویز الٰہی کا کہنا تھا کہ میرا بازو ٹوٹ گیا ہے اور سینے پر بھی چوٹیں آئی ہیں، اپوزیشن نے اپنے غنڈے بلائے ہیں‘ شریفوں کا اصل چہرہ سب نے دیکھ لیا ہے‘ سارے معاملے میں آئی جی پنجاب ملوث ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ میں نے دیکھا کہ رانا مشہور مجھ پر تشدد کررہے تھے اور حمزہ دور سے بیٹھے انہیں ہدایات دے رہے تھے، مجھ پر حملہ کروا کر جان سے مارنے کی کوشش کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ میں کہاں جاؤں، میرے لیے کوئی عدالت نہیں ہے‘ میں نے معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا ہے، از خود نوٹس ان کے لیے لیا جاتا ہے جن کی کوئی سفارش ہو ‘یہ شریفوں کی جمہوریت ہے۔