آخری امید جماعت اسلامی (آخری حصہ)

867

پاکستان کو جب بھی قربانی کی ضرورت پڑی تو جماعت اسلامی نے پیش کی۔ 1971 میں البدر اور الشمس نے 10,000نوجوانوں کی قربانی دی ہم کہ سکتے ہیں اگر یہ قربانی نہ دی جاتی تو شاید پاکستانی فوج 90,000 کی تعداد جس نے ہتھیار پھینکے تھے وہ اس سے بہت زیادہ ہوتی۔
جماعت اسلامی کے سیکڑوں ارکان و کارکنان سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی اداروں کے رکن رہے مگر کسی کے دامن پر کرپشن، کمیشن، اقربا پروری کا کوئی داغ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کی سیاست کا بنیادی مقصد ملک میں شریعت کا نفاذ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ عظیم مقصد جس کے لیے ہمارے بڑوں نے بے انتہا قربانیاں دے کر یہ ملک حاصل کیا تھا اس وقت تک پورا نہیں ہوگا جب تک کہ یہاں مدینہ کی طرز پر ایک اسلامی و فلاحی حکومت قائم نہیں ہو جاتی۔ ہمیں امید ہے کہ قوم اسلامی پاکستان خوشحال پاکستان کے ایجنڈے پر ہمارا ساتھ دے گی اور پاکستان دنیا میں اپنا کھویا ہوا عزت و وقار دوبارہ حاصل کر سکے گا۔ جماعت اسلامی نے 1947 سے 2022 تک ایسے پیشہ وارانہ مخلص اور دیانت دار افراد پیش کیے جس کی دنیا میں نظیر نہیں ملتی۔ چند ایک کو اس لیے پیش کرنا چاہوں گا تاکہ لوگوں کا اعتماد قائم ہو یہ مسلکی مذہبی جماعتوں کی طرح کوئی جماعت نہیں ہے بلکہ دنیا کے امور چلانے کے لیے جدید علوم سے آراستہ ایک بہترین ٹیم موجود ہے۔ جس کے پیچھے سید ابو الاعلیٰ مودودی کا لٹریچر موجود ہے جس سے ترکی کے صدر طیب اردوان نے رہنمائی حاصل کی، اگر بلدیاتی نظام کی بات کی جائے تو کراچی کو جب روشنیوں کا شہر کہتے تھے اس وقت جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی کراچی کے مئیر تھے۔ عبدالستار افغانی کا پہلا دور 1979سے 1983 تک رہا جس میں انہوں نے کراچی کے شہریوں پر دو بڑے احسانات کیے۔ ایک یہ کہ انہوں نے بلدیہ سے کرپشن کے خاتمے کا عہد کیا ور یہ کام کرکے دکھایا۔ شہریوں پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا اور اس عہد کو اس طرح پورا کیا کہ چند کروڑ روپے کے بلدیہ کراچی کے بجٹ کو صرف چار سال میں سو ارب تک پہنچا دیا۔ عبدالستار افغانی کا دوسرا بڑا احسان یہ تھا کہ انہوں نے کراچی کے تمام امیونٹی پلاٹس کا سروے کرایا اور ان کی چار دیواری تعمیر کروا دی۔ اس طرح اہل کراچی کے پارکوں اور کھیل کے میدانوں کو قبضہ مافیا سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 1979سے 1983 تک کا دور شہر کی بلدیاتی تاریخ کا سنہری دور ہے کہ ایک طویل عرصے سے شہر کراچی کے بلدیاتی اداروں پر بیوروکریسی قابض تھی۔ لوگ باگ جب دھڑا دھڑ سڑکیں تعمیر ہوتے، چوراہے بنتے، سگنلز نصب ہوتے، سیوریج کی لائنیں پڑتے، تاریک گلیوں کو روشن ہوتے، پارکس بنتے، کراچی کے پہلے اوور ہیڈ برج کی تعمیر کا آغاز ان ہی کے دور میں ہوا۔ مشرقی پاکستان سے اورنگی ٹاؤن میں آکر آباد ہونے والے مہاجرین کی بستیوں کو کے ڈی اے میں شامل کرانے کا سہرا بھی ان ہی کے سر ہے۔ عباسی شہید اسپتال میں کئی اہم شعبوں کا قیام، تیموریہ لائبریری کا قیام، عائشہ منزل کے قریب اسلامک سینٹر کا قیام، پانی کو بڑے پیمانے پر پانی کی فراہمی کے منصوبوں کا آغاز، کشمیر اسپورٹس کمپلیکس کی تعمیر، 133کچی آبادیوں کو مستقل کرنے کا عمل، صادقین آرٹ گیلری کا قیام اسپورٹس کے تمام رجسڑڈ اداروں کے لیے فنڈز مختص کرنے کا اعلان۔ جامعہ کراچی کو ہرسال ایک بس کا تحفہ، لیاری جنرل اسپتال کا قیام، کراچی میں پہلی بار گنجان آباد علاقوں میں گندی گلیوں کی پختگی کا مرحلہ، کراچی کی اہم شاہراہوں اور چورنگیوں پر اسلامی وثقافتی فن تعمیر کا کام، بلدیہ عظمیٰ کراچی کی ملکیتی زمینوں کے گرد چاردیواری کی تعمیر کا آغاز سمیت سیکڑوں امور انجام پائے۔ کراچی کے شہریوں کے لیے عبدالستار افغانی نے ایک بہت بڑی تفریح گاہ سفاری پارک قائم کی۔ اس پروجیکٹ پر خود انہیں بہت فخر تھا۔ کچی آبادیوں کو، جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا، ان کو مالکانہ حقوق دلوائے۔ غریب ہی غریب کا درد جانتا ہے، جب ہی تو وہ بابائے کراچی کہلائے۔ اپنی میئر شپ کے دوران اپنے علاقے لیاری کے لیے انہوں نے دو بنیادی کام کیے۔ ایک تو لیاری جنرل اسپتال، جو بالکل تباہ ہوگیا تھا، بلکہ منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ عناصر کا گڑھ بن گیا تھا۔ اس کے لیے صدر جنرل ضیاء الحق سے پانچ کروڑ روپے کی رقم منظور کرائی، جو اْس زمانے میں بہت بڑی رقم تھی۔ اس کے سامنے انہوں نے لیاری انٹرنیشنل فٹ بال گراؤنڈ تعمیر کرایا۔ جب میئر منتخب ہوا تو لیاری جیسے پسماندہ علاقے میں 60گز کے چھوٹے سے فلیٹ کی چوتھی منزل پر رہائش پزیر تھا اور جب میئر شپ سے فارغ ہوا تب بھی وہ اسی فلیٹ کا باسی اور مکین تھا۔
جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان میدان میں آئے تو دنیا نے یہ منظر دیکھا کہ 4سال کی مختصر مدت میں کراچی کا بجٹ معجزانہ طورپر 6ارب سے بڑھ کر ریکارڈ 42ارب تک پہنچ گیا۔ سڑکوں پر پہلی بار 300 کے قریب بڑی گرین بسیں رواں ہوگئیں۔ 18ماڈل پارکس سمیت 300 پارکس اور300 پلے گرائونڈز کی ازسرنو تعمیر کی گئی 38 نئے کالجز بنائے گئے۔ نعمت اللہ خان اہل کراچی کو جدید سہولتوں سے آراستہ امراض قلب کے اسپتال کراچی انسٹیٹوٹ آف ہارڈ کا تحفہ دیا۔ کے ایم ڈی سی فیزٹو تکمیل کو پہنچا ایف ٹی سی فلائی اوور مکمل ہوچکاتھا شاہراہوں قائدین اور شاہراہ فیصل فلائی اوور کا افتتاح ہورہا تھا لیاری ایکسپریس وے اور ناردن بائی پاس جیسے میگا پروجیکٹس پر تیزی سے کام جاری تھا سہراب گوٹھ فلائی اوور، قائدآباد فلائی اوور اور سب سے بڑھ کر کورنگی تک شاہ فیصل، ملیر ریوربرج پر تعمیر کراچی پروگرام کے تحت کام کا آغاز ہوا حسن اسکوائر فلائی اوور، کارسازفلائی اوور اورغریب آباد انڈر پاس کا سنگ بنیاد رکھا۔ کلفٹن انڈر پاس پر کام کا آغاز ہوا اسی عرصے میں کراچی کو پانی کی فراہمی کا عظیم منصوبہ کے۔ تھری شروع ہوا تو شہریوں کو کروڑوں گیلن پانی میسر آیا۔ جو ترقیاتی منصوبے شروع کیے گئے تھے میں سمجھتا ہوں کے تھری منصوبہ ان میں سب سے اہم منصوبہ تھا۔ راشد منہاس روڈ، جہانگیر روڈ، ماری پور، ڈالمیا روڈ، مہران ہائی وے، ابن سینا روڈ، مائی کلاچی روڈ اور شاہراہ اورنگی سے درجنوں بڑی سڑکوں کی تعمیر کی گئی سفاری پارک کا سفاری ایریا 34سال میں پہلی بار کھلا اور چئیر لفٹ کی تنصیب کا کام مکمل کیا گیا، نعمت اللہ خان نے شہر کے لیے 29 ارب روپے کا تعمیر کراچی پروگرام منظور کرایا۔ کراچی میں انقلابی تبدیلیاں رونمائی ہوئیں تو نعمت اللہ خان کا چرچا دنیا بھر میں ہونے لگا ورلڈگیزڈاٹ کام نے 2005 میں بہترین مئیر کے مقابلے کے لیے پورے جنوبی ایشیا سے صرف نعمت اللہ خان کو شارٹ لسٹ کیا اور اعتراف کیا کہ اگر نعمت اللہ خان مقابلے کے قوانین کے مطابق اکتوبر 2005 تک مئیر رہ جاتے تو دنیا کے 10بہترین میئرز کے لیے مضبوط ترین امیدوار تھے۔
ملکی سیاست میں پاکستان کی تاریخ میں معیشت کو بہتر کرنے کی کوشش میں پروفیسر خورشید 1978ء میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی وترقی رہے ہیں۔ وہ حکومت پاکستان کے پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین بھی رہے ہیں۔
1985،1997 اور 2002 ء میں سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور اقتصادی و منصوبہ بندی کے چیئرمین کے طور پر کام بھی کیا۔ پہلی مرتبہ اسلامی معاشیات کو بطور علمی شعبہ کے ترقی دی۔ اس کارنامے کے پیش نظر 1988ء میں پہلا اسلامی ترقیاتی بینک ایوارڈ عطاکیا گیا۔ آپ کے کارناموں کے اعتراف میں 1990ء میں شاہ فیصل بین الاقوامی ایوارڈ عطا کیا گیا۔ اسلامی اقتصادیات، مالیات کے شعبے میں خدمات کے اعتراف میں انہیں جولائی 1998ء میں پانچواں سالانہ امریکن فنانس ہاؤس لاربوٰ یو ایس اے پرائز دیاگیا۔
عنایت اللہ خان، وزیر بلدیات خیبر پختون خوا رہے، ان کی کارکردگی پر وزیراعظم عمران خان نے کیا تھا، تمام وزراء میں ان کی کارکردگی سب سے بہتر رہی، حال ہی میں اپوزیشن نے انہیں وزارت کی پیشکش کی لیکن انہوں نے یہ کہ کر ٹھکرا دی میں کسی بھی سازش کا حصہ نہیں بنوں گا۔ سینیٹر مشتاق احمد خان، جنہوں نے سینیٹ کے اندر پاکستان کی نظریاتی جدوجہد اور غریبوں کے مسائل کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں ان کو کروڑوں روپے کی آفر کی گئی چئیرمین سینیٹ کو ووٹ دینے کی لیکن انہوں نے دیانتداری کا مظاہرہ کیا۔ سراج الحق، امیر جماعت اسلامی پاکستان جو سینئر وزیر خیبر پختون خوا، وزیر خزانہ رہے اپنی پیشہ وارانہ مہارت اور دیانتداری کی وجہ سے ان کا نام عدالت عظمیٰ کے پلیٹ فارم سے صادق اور امین کے نام سے لیا جاتا ہے۔ خیبر پختون خوا میں غیر سودی بینکاری کے لیے ان کی کوشش قابل تحسین ہے۔
میرے ملک کے غیور لوگو اگر آپ کرپشن، ظلم، غربت سے پاک معاشرہ چاہتے ہیں تو ایسے رہبر کو ووٹ دینا جو پاکستان اور اسلام سے محبت کرنے والا ہو، یہ سوچ کر بھول نہ جانا کہ انہوں نے کون سا جیتنا ہے اگر آپ جماعت اسلامی کو ووٹ دیں گے تو ایک دن ضرور جیتے گی، صبح طلوع ہوگی، اندھیرا ختم ہوگا، ایسے باکردار اور باصلاحیت افراد صرف جماعت اسلامی کے پاس ہیں جو ملک کو سود سے پاک معیشت دیں گے، غربت سے پاک معاشرہ دیں گے، ظلم نہ ہو گا انصاف ہوگا، مفت تعلیم آپ کو میسر ہوگی، روزگار آپ کی دہلیز پر ہوگا ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگا اور ملک حقیقی مدینہ کی ریاست کی تصویر ہوگی، ایک آخری امید جو صرف جماعت اسلامی ہے جس کے بارے میں شاعر نے کیا خوب کہا ہے
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا
وطن کو جو ماہتاب کر دے
اْداس چہرے گْلاب کر دے
جو ظْلمتوں کا نظام بدلے
جو روشنی بے حساب کر دے
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا
خدا کرے وہ بہار آئے
جو قرض سارے اْتار آئے
مرے وطن کے نصیب میں بھی
سکون، راحت قرار آئے
خدا کرے کہ مرے وطن پر
گھٹائیں رحمت کی روز برسیں
مرے وطن کا ملے نہ ویزہ
یہ اہلِ یورپ بھی کچھ تو ترسیں