اسلام آباد ( میاں منیر احمد) کابینہ کی تشکیل کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف اور پیپلزپارٹی میں رابطے مثبت نتائج لے آئے ہیں اور پیپلزپرپارٹی اب کابینہ کا حصہ ہوگی، تاہم بلاول زرداری کے لیے ابھی فیصلہ نہیں ہو گا، وہ انسانی حقوق کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین شپ کے دلچسپی رکھتے ہیں کابینہ میں ان کی شمولیت کے معاملے پر پاٹی ابھی تک حتمی فیصلے تک نہیں پہنچی ہے ، عین ممکن ہے کہ وہ کابینہ میں آئے تو سینئر وزیر بھی ہوسکتے ہیں، حکومت کے لیے دوسرا بڑا اہم چیلنج صدر کے عہدے کے لیے امیدوار کے نام کا انتخاب ہے اس عہدے کے لیے اختر مینگل، مولانا فضل الرحمن اور سابق صدر آصف علی زرداری 3 سنجیدہ امیدوار ہیں، اب تک جن امور پر اتفاق ہوا ہے ان میں اسپیکر سندھ سے ہوگا اور پیپلزپارٹی اپنا امیدوار دے گی، اسپیکر کا انتخاب 16 اپریل کو متوقع ہے ‘ ڈپٹی اسپیکر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی ہے اس پر ووٹنگ کیلیے 15 اپریل کو شیڈول جاری ہونے کا امکان ہے۔ کابینہ میں پیپلزپارٹی کے 5سے 7 وزراء ہوں گے، پیپلز پارٹی صدر، اسپیکر قومی اسمبلی اور اکثریتی اصول کی بنیاد پر چیئرمین سینیٹ کا عہدہ چاہتی ہے، گورنر پنجاب کا عہدہ اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پیپلز پارٹی کو دینے پر اتفاق ہوچکا ہے جس کے پارٹی کی جانب سے مخدوم احمد محمود امیدوار ہوسکتے ہیں، جے یو آئی کی اصل نظر تو ایوان صدر پر ہے تاہم وہ مذہبی امور کی وزارت میں بھی دلچسپی لے رہی ہے، جس کے لیے مولانا اسعد محمود امیدوار ہیں ، حکومت میں شامل دیگر جماعتوں میں متحدہ، بی این پی، باپ نے بھی اپنے وزراء کے نام فائنل کرلیے ہیں اور نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کی جانب سے محسن داوڑ کابینہ میں ہوں گے، پیپلزپارٹی میں یہ سوچ بڑھ رہی تھی وفاقی کابینہ کا حصہ نہ بنا جائے۔ ذرائع کے مطابق کابینہ کا فیصلہ آج یا کل ہوجائے گا جو فیصلہ اتفاق رائے اور اکثریت کا فیصلہ ہو گا وہ سب تسلیم کریں گے اس وقت دو تجاویز ہیں کہ ایک تو الیکشن میں جانا چاہیے اور دوسرا آپشن یہ زیرغور آیا کہ کچھ عرصہ حکومت میں رہیں پھر اس کے بعد الیکشن کی طرف جایا جائے یہ بھی فیصلہ ہوا ہے کہ اگر پی ٹی آئی پشاور، کراچی اور لاہور میں جلسے کرے گی تو حکومت کی اتحادی جماعتیں بھی پشاور،کراچی اور لاہور میں اس سے بڑے جلسے کریں گی تاہم شہباز شریف نے کہا کہ وہ کابینہ میں آئے وزیر اعظم نے بھی پیش کش کی ہے پیپلز پارٹی مرکز میں اپنی پسند کی وزارتیں بھی لے لے تاہم پیپلزپارٹی آئینی عہدے چاہتی ہے، لیکن پیپلزپارٹی پنجاب میں وزارتیں لینے پر تیار ہے اور وہ آئینی عہدوں پر تقرریوں میں دلچسپی لے رہی ہے، وزیر اعظم شہباز شریف کی خواہش ہے کہ حکومتی اتحاد میں شامل تمام جماعتیں، مسلم لیگ(ن) جے یو آئی، پیپلزپارٹی، اے این پی، متحدہ، بلوچستان عوامی پارٹی، پی ٹی ایم، جمہوری وطن پارٹی، مسلم لیگ(ق) کابینہ کو ان کی پارلیمانی عدد ی قوت کے اعتبار سے حصہ دیا جائے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اسلام آباد میں بی این پی کے اختر مینگل، متحدہ قومی موومنٹ کے خالد مقبول صدیقی، جے یو آئی کے مولانا فضل الرحمن، پیپلزپارٹی کے آصف علی زرداری، نیشنل ڈیمو کریٹک موومنٹ کے محسن داوڑ، اے این پی، اور باپ کے خالد مگسی اور ان کے وفد سے ملاقاتیں کی ہیں جن میں حکومت کی ترجیحات اور کابینہ کی تشکیل کے لیے مشاورت کی گئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کا پہلا دن تھا جو انہوں نے کابینہ کی تشکیل کے حوالے سے مشاورت میں گزارا وہ تمام اتحادیوں سے ملے اور ان کا شکریہ ادا کیا چیئرمین پی پی پی وزیر خارجہ بن سکتے ہیں تاہم اس معاملے پر مشاورت جاری ہے۔ پارٹی کے ایک حلقے کی رائے ہے کہ چیئرمین پیپلز پارٹی کو شہباز شریف کی زیر قیادت وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بننا چاہیے کیوں کہ اس سے اتحادی حکومت میں دوسری بڑی جماعت کے سربراہ کی حیثیت مجروح ہوگی۔اس حلقے کا خیال ہے کہ شاید پیپلزپارٹی کے ورکرز اپنے چیئرمین کو مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعظم کے ماتحت کام کرتا دیکھ کر ناپسند کریں جو سیاست میں پی پی پی کی سب سے بڑی حریف ہے۔بلاول بھٹو کے ایک قریبی اور سینیئر پارٹی رہنما نے بتایا کہ انہوں نے چیئرمین کو ملک کا وزیر خارجہ بننے کا مشورہ دیا ہے،انہوں نے کہا کہ ملک کی 64 فیصد آبادی 30 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے اور وہ نوجوانوں کے نمائندہ ہیں، بلاول کی ان کی والدہ بینظیر بھٹو کی وجہ سے دنیا میں اچھی ساکھ ہے جو انہیں عالمی رہنماؤں کے ساتھ بین الاقوامی امور پر بات چیت میں مدد دے گی اس سے ان لوگوں میں ان کی مقبولیت بڑھے گی جنہوں نے سابق وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کو نہیں دیکھا اور اس سے پیپلزپارٹی کو مستقبل میں فائدہ ہوگا بلاول بھٹو زرداری کا بطور وزیر خارجہ تجربہ وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر ان کا کیس مضبوط کرے گا، تاہم اس معاملے پر کوئی باضابطہ بات چیت نہیں ہورہی اور جلد ہی فیصلہ کرلیا جائے گاپیپلز پارٹی کے دوسرے حلقے کی رائے ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو کابینہ میں شامل نہیں ہونا چاہیے وہ پارٹی کے معاملات پر توجہ دیں جس کا پیپلز پارٹی کو آئندہ عام انتخابات میں فائدہ ہوگا۔