اسلا م آباد(نمائندہ جسارت)قومی اسمبلی نے ن لیگ کے صدر شہباز شریف کو ملک کا 23 واں وزیرِ اعظم منتخب کر لیا ہے۔ 174 ارکان اسمبلی نے ان کے حق میں ووٹ دیا۔نئے قائد ایوان کے عہدے کے لیے متحدہ اپوزیشن کی طرف سے شہباز شریف جبکہ پی ٹی آئی کی جانب سے شاہ محمود قریشی کو امیدوار نامزد کیا گیا تھا تاہم پیر کو پی ٹی آئی کی جانب سے اس الیکشن کا بائیکاٹ کیا گیا۔قومی اسمبلی اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں قائد ایوان کے انتخاب میں حصہ لینا ایک ناجائز حکومت کو قانونی حیثیت دینے کے مترادف ہے، اس لیے ہم اس گناہ میں شریک نہیں ہونا چاہتے، میں وزیراعظم کے انتخاب کے عمل کے بائیکاٹ کا اعلان کرتا ہوں، پارٹی کے فیصلے کے تحت ہم سب اسمبلی سے مستعفی ہونے کا بھی اعلان کررہے ہیں، اس موقع پر پی ٹی آئی ارکان نعرے لگاتے ہوئے ایوان سے باہر چلے گئے۔جس کے بعد شہباز شریف واحد امیدوار رہ گئے،ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے وزیراعظم کا انتخاب کرانے سے معذت کرلی۔ ان کا کہنا تھا کہ میرا ضمیر گوارا نہیں کرتا کہ میں اس کارروائی کا حصہ بنوں، قاسم سوری نے بھی ایوان کی کارروائی ایاز صادق کے حوالے کرتے ہوئے اسپیکر کی نشست چھوڑ دی۔ ایاز صادق نے قائد ایوان کے انتخاب کا عمل شروع کرادیا ، ایوان میں 5منٹ تک گھنٹیاں بجائی گئیں جس کے بعد بعد ہال اور لابی کے دروازے بند کر دیے گئے اور ارکان کو اے اور بی لابی میں جانے کے لیے کہا گیا، جس کے بعد ووٹنگ شروع کردی گئی اور نئے قائد ایوان کے لیے رائے شماری کا عمل مکمل کرلیا گیا، جس کے بعدقومی اسمبلی میں ہونے والے اجلاس میں پینل آف چیئر کے رکن ایاز صادق نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ شہباز شریف کو 174 ووٹ ملے جبکہ پی ٹی آئی کے امیدوار شاہ محود قریشی کو کوئی ووٹ نہیں ملا۔اس موقع پر ایاز صادق نے شہباز شریف کو وزیراعظم کی نشست سنبھالنے کو کہا جس کے بعد شہباز شریف قومی اسمبلی میں قائد ایوان کی نشست پر براجمان ہوگئے۔بطور وزیراعظم اپنے پہلے خطاب میں شہباز شریف نے فوری طور پر قوم کو ریلیف دینے کا اعلان کردیا۔انہوں نے کہا کہ کم از کم ماہانہ اجرت 25 ہزار روپے ہوگی،سول اور ملٹری ریٹائرڈ پنشنرز کی پنشن میں 10 فیصد اضافہ ہوگا،ملک بھر کے بازاروں میں رمضان پیکج کے تحت سستا آٹا فراہم کیا جائے گا،نوجوانوں کو مزید لیپ ٹاپس دیے جائیں گے،بینظیر کارڈ دوبارہ لے کر آئیں گے، پروگرام کو مزید وسعت دی جائے گی، تعلیم کو بھی اس سے منسلک کریں گے۔ نومنتخب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ان تمام چیزوں کا اطلاق یکم اپریل2022ء سے فوری طور پر ہوجائے گا، ملکی سرمایہ کاروں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ بھی یکم اپریل سے ایک لاکھ تک تنخواہ والے ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد اضافہ کریں۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت کی جانب سے کی جانے والی مہنگائی کا زور کسی حد تک کم کرنے کے لیے عوام کو فوری ریلیف دے رہے ہیں۔شہباز شریف نے کہا کہ مراسلے کے معاملے پر پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کی ان کیمرہ بریفنگ کا انتظام کروں گا اور اگر سازش ثابت ہوئی تو استعفا دے دیں گے۔نومنتخب وزیراعظم کا کہناتھاکہ ایک ہفتے سے ڈراما چل رہا ہے کہ کوئی خط آیا ہے، کہاں سے آیا ہے، میں نے نہ وہ خط دیکھا نہ مجھے وہ خط کسی نے دکھایا، میں سمجھتا ہوں کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہیے،پوری قوم اور اس ایوان کے ایک ایک رکن کو حق حاصل ہے کہ حقیقت جاننا چاہتے ہیں تاکہ یہ بحث ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے،بطور منتخب وزیراعظم کہتا ہوں کہ پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی میں ڈی جی آئی ایس آئی اور مسلح افواج کے سربراہوں کی موجودگی میں ان کیمرہ بریفنگ دی جائے۔شہبازشریف نے کہا کہ اگر خط کے معاملے میں ذرہ برابر بھی سچائی ثابت ہوئی کہ ہم کسی بیرونی سازش کا شکار ہوئے یا ہمیں بیرونی وسائل سے مدد ملی تو ایک سیکنڈ میں وزارت عظمیٰ سے استعفا دے کر گھر چلا جاؤں گا، میں پہلی فرصت میں اِن کیمرہ سیشن کا انتظام کروا کر خط پر بریفنگ کرواتا ہوں۔ ایوان سے اپنے پہلے خطاب میں شہباز شریف نے کہا کہ تمام ساتھیوں کی کاوشوں سے اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بچا لیا ہے،یہ تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ پاکستان میں کسی وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور باطل کو شکست اور حق کی فتح ہوئی، آج کا دن پوری قوم کے لیے عظیم دن ہے کہ ایوان نے سلیکٹڈ اور جھرلو کی پیدوار وزیراعظم کو گھر کا راستہ دکھایا، عوام کے لیے خوشی کی بات کی اور کیا مثال ہوگی کہ آج ڈالر کے مقابلے میں روپیہ 8 روپے اونچا گیا، 190 سے واپس 182 پر واپس آگیا ہے، کہا جاتا تھا کہ ڈالر ایک روپیہ اوپر جائے تو وزیراعظم کرپٹ ہوتا ہے، یہ 8 روپے نیچے گیا ہے تو اب کیا کہا جائے گا، یہ عوام اور ایوان کے بھرپور اعتماد کا اظہار ہے۔ان کا کہنا تھا کہ میں عدالت عظمیٰ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے آئین شکنی کو کالعدم قرارد یتے ہوئے نظریہ ضرورت کو دفن کردیا۔ نو منتخب وزیراعظم کے بقول میں نے گزشتہ حکومت کو میثاق معیشت کی پیش کش کی تھی، میری میثاق معیشت کی پیشکش کا 2 مرتبہ حشر نشرکیا گیا، یہ زعم اور تکبر میں نہ ہوتے تو وہ پیشکش قبول کرتے، آج ملک آگے جارہا ہوتا، پاکستان رواں مالی سال سب سے بڑا بجٹ خسارہ کرنے جارہا ہے،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی تاریخ کا سب سے بڑا خسارہ ہونے جارہا ہے،60 لاکھ لوگ بیروزگار اور 2 کروڑ سے زائد خط غربت سے نیچے جاچکے، انہوں نے کھربوں کے قرض لیے ایک اینٹ تک نہیں لگائی، فرنٹ مین کے ذریعے کسان کو کھاد مہنگی دی گئی،پچھلے ماہ حکومت نے گندم اور کھاد کو اسمگل کروایا، پاکستان گندم اور چینی کا برآمدکنندہ تھا اور آج درآمدکنندہ بن گیا،میں یہاں کیا کیا بات کروں، فیکٹریوں کی چمنیاں بند ہوگئیں،مہنگائی عروج پر ہے، آج ہم ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز کررہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان کی معیشت کو پروان چڑھانا ہے، جمہوریت اور ترقی کو آگے بڑھانا ہے تو ڈیڈلاک نہیں ڈائیلاگ کی ضرورت ہے، تقسیم نہیں تفہیم سے کام لینا ہوگا، نہ کوئی غدار تھا ہے نہ کوئی غدار ہے، ہمیں احترام کے ساتھ قوم بننا ہوگا۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ تبدیلی باتوں سے نہیں آتی، اگر باتوں سے تبدیلی آنی ہوتی تو پاکستان کی معیشت کا اتنا بْرا حال نہیں ہوتا، ملک کی معیشت انتہائی گھمبیر صورتحال سے دوچار ہے، باتوں سے تبدیلی آنی ہوتی تو ہم ایک ترقی یافتہ قوم بن چکے ہوتے، اگر ملک کی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہے تو محنت اور محنت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔وزیر اعظم نے خود کو خادم پاکستان قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ قوم ایک عظیم قوم بنے گی، دنیا میں بھکاریوں کو کون پوچھتا ہے، ہم نے زندہ رہنا ہے تو باوقار طریقے سے خودداری سے جینا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں پاکستان کو خارجہ محاذ پر بے شمار ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا، چین کے ساتھ دوستی کمزور کرنے کی کوشش کی گئی اور سعودی عرب کو دھمکی دی گئی، سی پیک کو ’پاکستان اسپیڈ‘ سے چلایا جائے گا اور منصوبے کو تیزی سے آگے بڑھایا جائے گا۔ امریکا کے ساتھ برابری کی سطح پر تعلقات قائم کریں گے،ہم دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو استوار کریں گے،پاک چین دوستی لا زوال ہے جو قیامت تک جاری رہیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ حکومت کی پالیسی کے نتیجے میں ہمارے اسٹریٹجک پارٹنرز ہمارا ساتھ چھوڑ گئے، ہمارے دوست ممالک ہمرا ساتھ چھوڑ گئے اور کشمیر کے مسئلے کے حوالے سے ہم بالکل خاموش ہوکر بیٹھ گئے۔نومنتخب وزیر اعظم نے کہا کہ امریکا میں پاکستان کی برآمدات اربوں ڈالرز ہیں اور موجودہ دور کی سفارت کاری معاشی طاقت پر منحصر ہے، اگر آپ کی معیشت مضبوط نہیں ہوگی تو آپ کی سفارت کاری مضبوط نہیں ہوسکتی، اس لیے ہمیں اس بات کا بہت خیال رکھنا چاہیے۔شہباز شریف نے کہا ہم بھارت کے ساتھ پر امن دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہیں لیکن مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل تک خطے میں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا،ہم کشمیر کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے، ہم کشمیر کے لوگوں کی ہر سطح پر سفارتی اور اخلاقی حمایت جاری کریں گے۔ انہوں نے بھارتی وزیراعظم کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ آئیں ہم دونوں ممالک کے مسائل کے حل کے لیے، ان کو غربت اور پسماندگی سے نکالنے کے لیے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کو حل کریں۔انہوں نے کہا ہم فلسطین کے عوام کے حق خود ارادیت اور ان کی آزادی کے لیے آواز ا ٹھاتے رہیں گے۔ شہبازشریف نے کہ پاکستان کے معروضی حالات کے پیش نظر ہمیں قومی یکجہتی کی جانب بڑھنا ہوگا، اپنے اختلافات کوبھلانا ہوگا۔نومنتخب وزیراعظم کی تقریر کے بعدپینل آف چیئرمین ایاز صادق نے بلاول کو خطاب کی دعوت دی۔بلاول کا خطاب شروع ہونے سے پہلے قاسم سوری اسمبلی میں واپس آئے جس پر ایاز صادق نے اسپیکر کی کرسی چھوڑ دی۔قاسم سوری نے اسپیکر کی کرسی پر بیٹھتے ہی پارلیمانی روایات کے برخلاف اجلاس 16 اپریل شام 4 تک ملتوی کر دیا۔ پارلیمانی روایات کے مطابق قائد ایوان کے انتخاب کے بعد تمام پارلیمانی لیڈر خطاب کرتے ہیں۔بعد ازاں نومنتخب وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے عہدے کا حلف اٹھالیا ہے۔ایوان صدر میں ہونے والی تقریب میں قائم مقام صدرصادق سنجرانی نے نومنتخب وزیراعظم شہبازشریف سے حلف لیا۔تقریب حلف برداری میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول زرداری، سربراہ پی ڈی ایم مولانا فضل الرحمن اور سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی موجود تھے۔ایوان صدر کے مطابق صدر مملکت عارف علوی علیل ہوگئے ہیں اور ڈاکٹر نے صدرمملکت کے معائنے کے بعد انہیں چند روز آرام کا مشورہ دیا ہے۔ان کی علالت اور مختصر رخصت کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے قائم مقام صدر کی ذمے داریاں سنبھالی ہیں۔